اہم قومی و بین الاقوامی امور۔۔۔

کورونا وائرس نے ایک مرتبہ پھر سر اٹھایا ہے ‘گزشتہ روزاین سی او سی نے ملک میں ماسک کے استعمال پر سخت عملدرآمد کا فیصلہ کرتے ہوئے کورونا ایس او پیز پر سختی سے عمل درآمد کی ہدایت کردی،نیشنل کمانڈ اینڈ کنٹرول سینٹر نے کہا کہ کورونا ہاٹ سپاٹس پرسمارٹ لاک ڈاﺅن پالیسی جاری رہے گی تاہم 50 فیصد عملے کی ورک فرام ہوم پالیسی کا فیصلہ صوبوں کی مشاورت سے ہوگا،این سی او سی نے اسلام آباد میں 50فیصد سٹاف گھر سے کام کی پالیسی فی الفور نافذ کرنے اور تجارتی مقامات کورات 10بجے بند کرنے کی پالیسی دوبارہ سے نافذ کرنے کا فیصلہ کیا گیا،اجلاس میں ملک بھر میں پارکس شام 6 بجے تک بند کرنے فیصلہ کرتے ہوئے انڈور شادی تقریبات اورکھانوں کی اجازت واپس لینے سمیت 15مارچ سے سینماز اور مزارات کھولنے کا فیصلہ بھی واپس لے لیا گیا تاہم آﺅٹ ڈور کھانوں ، ٹیک اوے کی سہولت میسر رہے گی جبکہتعلیمی ادارے بھی پھر دوہفتے کے لئے بند کرنے کا اعلان کیا گیا ۔یہ بات تو طے ہے کہ من حیث القوم اس وبا ءسے نمٹنے کے لئے جو حفاظتی اقدامات اٹھانے ضروری ہیں ان پر عملدرآمد کرنے میں ہم نے کوتاہی کا مظاہرہ کیا ہے‘ حکومت اگر اس معاملے میں سختی نہیں کرے گی تو یہ وبا ءایک لمبے عرصے تک اس ملک کا پیچھا نہیں چھوڑے گی یورپ کے کئی ممالک میں تو اب اس سلسلے میں اتنی سختی کی جارہی ہے کہ گھر سے باہر اگر کوئی فرد بغیر ماسک پہنے نکلتا ہے تو اسے موقع پر ہی جرمانہ کردیا جاتا ہے اور وہ جرمانہ پاکستانی کرنسی کے مطابق بیس ہزار روپے سے کم نہیں ہوتا اب تو ماسک یورپ کے کئی ممالک کے لوگوں کے لباس کا جزو لاینفک بن گیا ہے اور بھاری جرمانے کے خوف سے وہاں کے عوام اب ماسک کے بغیر گھر سے باہر قدم نہیں رکھتے ‘ہم نے بھی اگر اس وباءپر قابو پانا ہے تو تنگ آمد بجنگ آمد ایس او پیز پر قوم کو عمل درآمد کروانے پر مجبور کرنے کے لئے سخت اقدامات کرنے ہونگے‘ کورونا وائرس کی ویکسین کے انجکشن لگانے کا عمل تیز کیا جائے اور روزانہ کی بنیاد پر قوم کو میڈیا کے ذریعہ باخبر رکھا جائے کہ اس ضمن میں کتنے افراد کو یہ ویکسین لگائی گئی ہے‘ اس سلسلے میں تمام دنیا میں برطانیہ نے سب سے زیادہ چابکدستی کا مظاہرہ کیا ہے چونکہ کورونا وائرس کی تیسری لہر کا معاملہ بڑا سنگین تھا اس لئے ہم نے آج اس کالم میں اسے جملہ معترضہ کے طور پر لکھا اب ذرا ذکر ہو جائے دوسرے عام قومی اور بین الاقوامی امور کا قارئین نے ضرور اس بات کو نوٹ کیا ہوگا کہ کچھ عرصے سے لائن آف کنٹرول پر کافی خاموشی ہے اور اب بھارت کی طرف سے فائرنگ کا سلسلہ کافی حد تک بند ہوچکا ہے حالانکہ گزشتہ ماہ تک یہ روزانہ کا معمول تھا لگ یہ رہا ہے کہ امریکہ کی نئی سیاسی قیادت کا اس سلسلے میں بڑا ہاتھ ہے دوسری جانب افغانستان میں دہشت گرد ایک مرتبہ پھر یکجا ہو رہے ہیں اور گزشتہ چند دنوں میں وطن عزیز میں دہشت گردی کے جو تازہ ترین واقعات رونما ہوئے ہیں اس میں ان کے پیچھے ان کا بڑا ہاتھ ہے اور اس کی تصدیق وزیر داخلہ نے بھی کی ہے۔اس ضمن میں پاک افغان بارڈر پر باڑ لگانے اور قلعے بنانے کے جس منصوبے پر کام کیا جا رہا ہے اس میں تیزی لانے کی ازحد ضرورت ہے ‘ باڑ لگانے اور قلعے بنانے کا کام اپنی جگہ تو بالکل ٹھیک ہے پر مسئلہ صرف اس کام سے ہی حل نہیں ہوگا جب تک ہم افغانستان کے ساتھ اپنا ایمیگریشن سسٹم سائنسی بنیادوں پر استوار نہیں کریں گے اور اسی طرح اس ملک میں غیر ملکیوں خصوصا ًافغانیوں کی انٹری پر نظر نہیں رکھیں گے اور کنٹرول نہیں کریں گے کہ جس طرح نائن الیون کے واقعے کے بعد امریکہ میں ہوم لینڈ سکیورٹی کے تحت کنٹرول کیا جا رہا ہے‘تجربہ یہ بتاتا ہے کہ اکثر افغانی پاکستان میں میڈیکل چیک اپ کے بہانے داخل ہوتے ہیں اور پھر مقامی حکام کی نظروں سے اوجھل ہو جاتے ہیں ‘ پشاور سے لے کر کراچی تک وہ کسی نہ کسی شہر میں غائب ہو جاتے ہیں کیا ایسا کوئی میکنیزم بنایا گیاہے کہ جس سے پتہ چل سکے کہ یہ افغانی اپنے ویزے کی معیاد ختم ہونے کے بعد افغانستان واپس جاچکے ہیں ۔