امریکہ کے جھانسے میں نہ آئیں 

امریکہ کی ترکی کو گن شپ ہیلی کاپٹروں کی پاکستان کو فراہمی روک دینے کی خبر کوئی اچھنبے کی بات نہیں‘روز اول سے ہی یعنی انیس سو سینتالیس سے پاکستان کے بارے میں امریکہ کی پالیسی وقت کے تقاضوں کے ساتھ ساتھ بدلتی رہی ہے‘ اس میں ردوبدل آتا رہا ہے آج کل امریکہ بھارت پر کافی مہربان ہے اور وہ اس لئے کہ امریکی انتظامیہ نے اب یہ فیصلہ کر لیا ہے کہ وہ اسے چین کے خلاف ایک ڈھال کے طور پر استعمال کرے گی بھارت ہمارا ازلی دشمن ہے اور امریکہ کسی ایسے کام کی حمایت نہیں کرے گا جس سے بھارت کے نا لاں ہونے کا خدشہ ہو ماضی میں بھی جب کبھی امریکہ نے پاکستان کو جدید ترین اسلحہ بیچا یا امریکہ میں بنے ہوئے اسلحہ یا ہوائی جہازوں کو پاکستان نے کسی دوسرے ملک سے بھی خریدا تو بھارت کو پریشانی ہو جاتی‘ عقل مند وہ ہوتا ہے جو ماضی سے سبق ملے اور وہ غلطیاں نہ دہرائے کہ جس سے اسے ماضی میں نقصان پہنچا ہو‘ماضی میں سابقہ سوویت یونین ہم سے ناراض ہوا‘اس ضمن میں مرحوم ائیرمارشل ریٹائرڈ اصغر خان نے اپنی ایک کتاب میں لکھا ہے کہ 1965 ء کی پاک بھارت جنگ کے دوران انہیں فیلڈ مارشل محمد ایوب خان نے چین بھیجا تاکہ ان سے ممکنہ فوجی امداد حاصل کی جا سکے اس وقت کے چین کے وزیراعظم چو این لائی نے انہیں مسکراتے ہوئے کہا کہ ہمارے تمام ہوائی جہاز آپ استعمال کرسکتے ہیں پر ساتھ ہی انھوں نے ایک نہایت ہی معنی خیز جملہ بھی کہا تھا اور وہ یہ تھا بے شک آپ ہمارے تمام ہوائی جہاز لے جا سکتے ہیں پر میرا خیال نہیں کہ ہماری اس پیشکش کو صدر ایوب خان قبول کرکے امریکہ کو ناراض کریں‘ کہنے کا مقصد یہ ہے کہ چین کی قیادت کی دانشمندی کا اندازہ آپ اس بات سے لگائیں کہ اسے اچھی طرح پتہ تھا کہ پاکستان کا عام آدمی چین کے عام آدمی سے دلی لگاؤ رکھتا ہے‘ بعض افراد غالبا ًیہ بات بھول گئے کہ سی پیک کے معاہدے کے بعد تو اب یہ بات اظہر من الشمس ہے کہ پاکستان چین کے ساتھ کھڑا ہے‘اس خطے میں پاکستان کی جغرافیائی لحاظ سے نہایت اہم اسٹریٹجک پوزیشن ہے اس لئے امریکہ ہمیں چھوڑتے ہوئے بھی چھوڑ نہیں سکتا‘اس کی موجودہ حکمت عملی یہ ہے کہ ایک طرف وہ وسطی ایشیاء کے ممالک میں اپنا سیاسی اثر و رسوخ بڑھائے اور دوسری طرف اس کی پالیسی یہ ہے کہ وہ چین کو حتی الوسع معاشی عسکری اور سیاسی لحاظ سے کمزور کرے کیونکہ سوویت یونین کے ٹکڑے ٹکڑے کرنے کے بعد اب اگر اسے دنیا میں اپنے مد مقابل کوئی اہم ملک دکھائی دیتا ہے تو وہ صرف چین ہی ہے اور واشنگٹن کو یہ خدشہ ہے کہ اگر اسی رفتار سے چین دنیا میں معاشی اور سیاسی لحاظ سے مضبوط ہوتا چلا گیا تو بہت جلد وہ بطور سپر پاور دنیا میں امریکہ کی جگہ لے سکتا ہے اور یہ ممکنہ بات امریکہ کے پالیسی ساز اداروں کو سخت پریشان کر رہی ہے‘ موجودہ صورتحال میں دانشمندی کا تقاضہ یہ ہے کہ ہم ماضی کی غلطیوں سے سبق لیتے ہوئے آئندہ امریکہ کے کسی بھی جھانسے میں نہ آئیں‘بے شک ہمیں اہل مغرب کے ساتھ بھی اپنے تعلقات میں بگاڑ نہیں لانی چاہئے پر اس کے ساتھ ساتھ مغرب کے ممالک کے مفادات کے تحفظ کی خاطر ہم اپنی زمین کو کبھی بھی چین یا اس خطے میں روس یا وسطی ایشیا ء کے کسی ملک کے خلاف استعمال کرنے کی اجازت نہ دیں کہ یہ بہت مہنگا سودا ہوگا۔