بلوچستان کے عوام کا دل جیتیں۔۔

دیر آ ید درست آ ید عمران خان کا فیڈرل گورنمنٹ کے سیکرٹریوں کو یہ حکم نہایت بجا ہے کہ وہ بلوچستان کے ترقیاتی کاموں پر نظر رکھنے کیلئے اس صوبے کا زیادہ سے زیادہ دورہ کیا کریں یہ ایک تلخ حقیقت ہے کہ جتنی توجہ کا مستحق یہ صوبہ ہے اتنی توجہ اسے کبھی بھی نہیں دی گئی ہر سوال یہ پیداہوتاہے کہ یہ بات صرف سیکریٹریوں کے دوروں تک ہی کیوں محدود رکھی جائے ہماری دانست میں تو وزیر اعظم سے لے کر تمام مرکزی وزراءکا بھی یہ فرض بنتا ہے کہ وہ بلوچستان کے عوام کے مسائل سے اپنے آپ کو مکمل طور پر باخبر رکھیں اور ان کو ترجیحی بنیادوں پر حل کریں اور یہ کام براہ راست رابطے کے بنا ناممکن ہے یہ درست ہے کہ اٹھارویں ترمیم کے بعد صوبوں میں فیڈرل گورنمنٹ کا زیادہ عمل دخل نہیں رہا ہر یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ کئی امور ایسے بھی ہیں کہ جو آئین پاکستان کی رو سے مرکزی حکومت کی براہ راست ذمہ داری کے زمرے میں آ تے ہیں اور جن کا تعلق اس ملک کی سالمیت سے براہ راست ہوتاہے صرف یہی نہیں کہ بلوچستان اس ملک کا سب سے بڑا صوبہ ہے وہ جغرافیائی لحاظ سے بھی بڑی اہمیت کا حامل ہے اس کے ساتھ ایک سے زیادہ ممالک کی سرحدیں ملتی ہیں بلوچستان کے علاقے گوادر میں دنیا کی بہت بڑی بندرگاہ موجود ہے جو بھارت اور امریکہ دونوں کی آنکھوں میں کھٹکتی ہے اور یہ دونوں ممالک اسے کسی حالت میں بھی پنپتا نہیں دیکھ سکتے بھارت نے پاکستان کے خلاف جو غیر روایتی جنگ شروع کر رکھی ہے بلوچستان اس کا پہلا ٹارگٹ ہے بھارت بلوچستان میں بدامنی کازہر تیزی سے پھیلانے کی کوشش میں ہے اور اسے صرف اسی صورت میںہی ختم کیا جا سکتا ہے کہ جب حکمران اپنے طرز عمل سے بلوچستان کے عام آدمی کے معاملات میں اتنے رچ بس جائیں کہ وہ بس یک جان دو قالب ہو جائیں وزیراعظم صاحب اور دیگر فیڈدل وزراءکوئٹہ میں مستقل بنیادوں پر اپنے کیمپ آفس قائم کریں جہاں ان کا ہر ماہ میں کم از کم ایک دفعہ آ نا جانا ضرورہو۔گوادر کی بندرگاہ کو کامیاب کرنا ہمارے لئے موت اور زندگی کا سوال ہے اگر تو یہ کامیابی سے ہمکنار ہو جاتی ہے تو سمجھ لیں کہ ہمارے ہاتھ سونے کے انڈے دینے والی مرغی آ گئی ہے اس کی کامیابی سے ہماری معیشت کے وارے نیارے ہو سکتے ہیں اور بھارت کب یہ چاہتا ہے کہ اس ملک کے دن پھریں۔ بلوچستان میں چونکہ اب تک پرانے روایتی قبائلی نظام کا اثرورسوخ کافی حد تک قائم ہے کہ جس میں ہر قبیلے کے مشران سیاسی طور پر کافی مضبوط ہوتے ہیں اور کسی بھی ترقیاتی منصوبے کو کامیابی سے ہمکنار کرنے کےلئے ہر انتظامیہ کو ان کی آشیرباد حاصل کرنا ضروری ہوتی ہے اس لیے سر دست حکومت کو چاہئے کہ وہ وہاں کے عوام کی فلاح و بہبود کےلئے ترقیاتی منصوبے ایسی حکمت عملی کے ساتھ مرتب کرے کہ جس میں علاقے کے مشران کی عزت نفس بھی مجروح نہ ہو اور اس علاقے کے عام آدمی میں کو بھی معاشی فائدہ پہنچے اور اس کی زندگی میں خوشگوار تبدیلی آئے انتظامیہ کو مشران اور عوام الناس دونوں کو اعتماد میں لے کر وہاں اس قسم کے ترقیاتی منصوبے وضع کرنے چاہیں کہ جن کے ثمرات عام آدمی تک پہنچ سکیں بلوچستان کے عام آدمی کو البتہ یہ بتانا بہت ضروری ہے کہ گزشتہ 40 برسوں میں حکومت نے زندگی کے مختلف شعبوں میں ترقیاتی کاموں کےلئے کون کون سے منصوبے بنائے ان کےلئے کتنی رقم مختص کی گئی اور اس کے نتائج کیا نکلے۔