اسی عطار کے لونڈے سے دوا لیتے ہیں۔۔۔

 کونسی جمہوریت اور کیسی جمہوریت اس ملک کے عام آ دمی کو اس بات سے بھلا کیا سروکار کہ سینٹ کا چیئرمین کون ہو وہ تو اپنا اور اپنے بال بچوں کا پیٹ پالنے کیلئے دو وقت کی باعزت روٹی چاہتا ہے اسے البتہ یہ ضرور علم ہو گیا ہے کہ سینٹ کا الیکشن بس پیسے کا کھیل ہے اس کے الیکشن میں وہ سرخرو ہوتا ہے کہ جو اس کی سیٹ خریدنے کیلئے پیسوں کی بوری کا منہ کھول دے بہرحال صادق سنجرانی کی جیت سے حکومت کو سانس لینے کا موقع ضرور مل گیا ہے اسی طرح مرزا آ فریدی کی بطور ڈپٹی چیئرمین سینٹ فتح سے پی ڈی ایم کو کافی زک پہنچی ہے اب عدالتیں ہوں گی اور یہ لوگ وہاں قانونی موشگافیوں کے بل بوتے پر ایک لمبے عرصے تک جنگ لڑیں گے اور اس عمل میں اگر کسی کے مزے ہوں گے تو وکلاءصاحبان کے ہوں گے مولانا فضل الرحمن صاحب بھی سینٹ کے چیئرمین اور ڈپٹی چیئرمین کے الیکشن کے نتائج پر اتنے ہی رنجیدہ ہوں گے کہ جتنی پی پی پی اور نواز لیگ کی قیادت ہے مولانا عبدالغفور حیدری ان کے خاص الخاص لوگوں میں سے تھے نواز لیگ اور پی پی پی کے ادوار حکومت میں ان کی کافی پذیرائی ہوا کرتی تھی ‘ کئی سیاسی مبصرین کا خیال ہے کہ پی ڈی ایم کا وجود عمران خان کی دشمنی پر قائم ہے ورنہ اس میں شامل سیاسی پارٹیوں میں کوئی قدرے مشترک نہیں ہے اور کوئی دن جاتا ہے کہ صبح کی اوس کی طرح ان کا اتحاد کسی نہ کسی دن تحلیل ہو جائے گا نواز لیگ اور پی پی پی تو ماضی میں ایک دوسرے کے خلاف سخت سیاسی حریف رہے ہیں اور میثاق جمہوریت کے باوجود ان کے ایک دوسرے کے خلاف میلے دل صاف نہیں ہوئے ہیں پر عمران کی دشمنی میں انہوں نے آپس میں گٹھ جوڑ کر لیا ہے ‘اس ملک کے عام آدمی کو کیا پڑی کہ ملک میں کونسا نظام حکومت ہو مغرب کے دانشور بڑا شور مچاتے ہیں کہ چین میں بڑا ظالمانہ نظام حکومت ہے اوراس کے بر عکس امریکہ میں اچھا نظام ہے پر حیرت کی بات ہے کہ ایک سروے کے مطابق چین کے 85 فیصد لوگ ہنسی خوشی کی مطمئن زندگی گزار رہے ہیں جبکہ امریکہ کے صرف 37 فیصد لوگ خوش ہیں ایک عام آ دمی کو کیا چاہئے یہی ناں کہ اپنے اور اپنے بال بچوں کے لئے دو وقت کی باعزت روٹی بیماری کی صورت میں مفت علاج بچوں کی مفت تعلیم کا بندوبست اور اچھا ٹرانسپورٹ سسٹم اس کی بلاسے کہ ملک میں جو بھی نظام حکومت ہو ہمارے ہاں تو جو الیکشن ہوتے ہیں وہ تو سر مایہ داروں کے چونچلے ہیں ان کو اپنا فالتو وقت گزارنے کے لئے یا تو بڑے بڑے گاف کلب چاہئیں اور یا پھر ائر کنڈیشنڈ ڈیبیٹنگ ہال ‘یہ لوگ ایوان اقتدار کا ہر وقت حصہ اس لئے بھی بننا چاہتے ہیں تاکہ اس دولت کی حفاظت کر سکیں جو وہ جانتے ہیں کہ انہوں نے کن کن حربوں سے بنائی ہے جی جو بات افسوسناک ہے وہ یہ ہے کہ ہمارے لوگ اچھی طرح جانتے بوجھتے ہوئے ان ہی چہروں کو بار بار اقتدار کے سنگھاسن پر بٹھا دیتے ہیں کہ جنہوں نے ان کو ماضی میں دونوں ہاتھوں سے لوٹا ہوتا ہے ان کا معاشی استحصال کیا ہوتا ہے ان کے اس طرز عمل پر ہم بجز میر تقی میر کے اس شعر کے علاوہ اور کیا کہہ سکتے ہیں کہ میر کیا سادہ ہیں بیمار ہوئے جن کے سبب ۔۔اسی عطار کے لونڈے سے دوا لیتے ہیں۔یہ بات تو اظہر من الشمس ہے کہ وزیراعظم عمران خان کا دل غریبوں کیلئے دھڑکتا ہے یہ پنا گاہوں کا قیام ‘یہ کوئی بھوکا نہ سوئے جیسے پروگرام وزیراعظم عمران خان کی اس ملک کے عام آدمی کی بھلائی کے جذبے کی غمازی کرتا ہے پر اس قسم کی خیرات سے بہتر بات یہ ہو گی کہ جس طرح برطانیہ ‘ناروے ‘سویڈن اور ڈنمارک نے اپنے ہاں سوشل ویلفیئر کا نظام رائج کیا ہوا ہے انہی خطوط پر وطن عزیز میں ضرورت مندوں کو زندگی کی بنیادی سہولتیں بھی فراہم ہوں تا کہ ان کی عزت نفس پر بھی کوئی بوجھ نہ ہو یہ تب ہی ممکن ہو سکتا ہے کہ اس ملک کی معیشت کو پہلے دستاویزی بنایا جائے ‘ مقام افسوس ہے کہ یہ پہلا قدم لینے سے اب تک ہر حکمران ہچکچاتا رہا ہے اور اس کا خمیازہ عوام بھگت رہے ہیں جہاں مہنگائی میں اضافے کی وجہ سے ان کی قوت خرید جواب دے گئی ہے اگر اس طرف بھرپور توجہ دی جائے تو کوئی وجہ نہیں کہ معاملات مستقبل قریب میں سدھر جائیں۔