ایسے حالات میں کہ ایک طرف کورونا کی تیسری لہر زوروں پر ہے اور ملک بھر میں اس کے کیسز اور اموات میں اضافہ دیکھنے میں آرہا ہے ، سیاسی گرما گرمی بھی عروج پر ہے ۔عام تاثر یہ ہے کہ حکومت کو یہ نہیں کہنا چاہئے کہ کورونا کا خطرہ ہے لانگ مارچ موخر کریں اس بیانیہ سے یہ غلط تاثر عوام میں پھیل رہا ہے کہ حکومت باربار کورونا کے خطرے کا راگ الاپ کر پی ڈی ایم کو ڈرا رہی ہے کہ وہ لانگ مارچ کرنے سے گریز کرے۔ اس مسئلہ کو بڑی سادہ زبان میں بیان کیا جائے کہ اگر عوام ایس او پیز پر عمل نہیں کریں گے تو ان کی زندگیوں کو خطرہ لاحق ہو سکتا ہے ۔ اسلئے ایس او پیز کی ہر حالت میں پابندی کی جائے، یعنی لانگ مارچ بھلے ہو مگر اس کے شرکاءکو کورونا کی تازہ ترین لہر کے مد نظر ایس او پیز پر سختی سے پابندی کرنے کے حوالے سے تاکید کی جائے۔ تاہم دیکھا جائے تو جس قدر حکومت کی طرف سے کورونا کے حوالے سے احتیاطی تدابیر اور ویکسی نیشن کی مہم چلائی جار ہی ہے عوام اسی پیمانے پر سنجیدگی کا مظاہرہ نہیں کر رہے۔ پاکستان کے ایٹم بم کے خالق ڈاکٹر قدیر خان نے بعض ایسی باتیں کہی ہیں کہ جو بڑی غور طلب ہیں انہوں نے فرمایا ہے کہ ہائر ایجوکیشن کمیشن کے ایک حالیہ فیصلے کے مطابق 4 سال کے بی ایس کے بعد سٹوڈنٹ پی ایچ ڈی میں داخلہ لے سکتا ہے اس ضمن میں عرض ہے کہ جرمنی میں اے لیول بارہ برس کا کورس ہے جس کے بعد پھر یونیورسٹی میں ماسٹرز کم از کم پانچ برس اور عموما چھ سال کا کورس ہوتا ہے ہالینڈ بلجیم فرانس اور اٹلی میں بھی یہی رواج ہے اور ماسٹرز میں پانچ چھ سال لگتے ہیں اس کے بعد ڈاکٹریٹ میں تین مگر عموما 4 یا 5 سال لگتے ہیں اس تقابلی جائزہ کے بعد کیا ہمارا پی ایچ ڈی ان کے پی ایچ ڈی کے برابر ہو سکتا ہے ۔اس بات پر ایک تفصیلی ریسرچ کی ضرورت ہے۔ اب کچھ تذکرہ ہو سیاست کا ،جے یو آئی فضل الرحمان گروپ کے اندر مولانا شیرانی اور حافظ حسین احمد جیسے پرانے رہنماو¿ں اورپارٹی قیادت کے درمیان اختلافات کی وجہ سے بظاہر تو جے یو آئی کی موجودہ سیاسی قیادت کو کوئی زیادہ فرق نہیں پڑا پر مستقبل میں جب ملک میں الیکشن ہوگا توامکان ہے کہ بلوچستان میں جے یو آئی کو سیاسی طور پر ان اختلافات کا خمیازہ بھگتنا پڑے۔ اسے آپ جے یو آئی کے رہنماو¿ں کی سیاسی فراست کہہ سکتے ہیں کہ مولانا فضل الرحمان صاحب اور مولانا شیرانی صاحب کے سیاسی دھڑوں نے آپس میں باوجود سیاسی اختلافات کے ایک دوسرے کے خلاف زبان کے استعمال میں تادم تحریر نہایت احتیاط برتی ہے اور ان کی یہ کوشش رہی ہے کہ ان کے منہ سے ایک دوسرے کے خلاف کوئی ایسی بات نہ نکلے کہ جس سے ان کے درمیان مفاہمت کے تمام دروازے بند ہو جائیں سیاسی مبصرین کے مطابق اگر مولانا فضل الرحمن صاحب نے آئندہ الیکشن میں اپنی سیاسی پارٹی کی کارکردگی کو بہتر بنانا ہے تو انہیں یقینا مولانا شیرانی صاحب اور ان کے سیاسی دھڑے کےساتھ مفاہمت کرنی ہوگی لگ رہا ہے کہ گزشتہ ایک آ دھ سال میں اگر ملک کی کسی اپوزیشن سیاسی پارٹی نے اپنی پوزیشن کو بہتر بنایا ہے تو وہ پی پی پی ہی ہے جبکہ بعض لوگوں کی رائے کے مطابق اسکے مقابلے میں نواز لیگ نے کوئی اچھی کارکردگی کا مظاہرہ نہیں کیا۔ حقیقت یہ ہے کہ مزاحمتی سیاست سے زیادہ اس وقت ملک کو مفاہمتی سیاست کی ضرورت ہے اور عام آدمی بھی اس حقیقت کا ادراک رکھتا ہے اور یہی وجہ ےہ کہ وہ اپنے مسائل کے حوالے سے پریشان ہے اور وہ چاہتا ہے کہ سیاسی قیادت اس ضمن میں سنجیدگی کا مظاہرہ کرے چاہے وہ حکومت ہے یا حزب اختلاف۔ سیاسی اختلافات اپنی جگہ مگر عوام کو درپیش مسائل کے حل، ملکی معاملات اور قومی سا لمیت کے ایشوز پر سب کو یکجا ہونے کی ضرورت ہے ۔