نہ نو من تیل ہوگا نہ رادھا ناچے گی۔۔۔

پی ڈی ایم سخت مخمصے میں ہے ایک طرف کھائی ہے تو دوسری طرف دریا اس سیاسی اتحاد کی قیادت کو اب یہ سجھائی نہیں دے رہا کہ وہ آگے قدم بڑھائے یا پیچھے ہٹے، اس میں شامل تقریبا ًتمام سیاسی پارٹیوں کو زرداری صاحب کے اس بیان سے کافی دھچکا پہنچا کہ فی الحال استعفوں کا وقت نہیں اسی لئے تو سیانے کہہ گئے ہیں کہ کسی بھی معاملے میں اتنے بلند و بانگ دعوے اور وعدے نہ کرو کہ کل کلاں اگر کسی وجہ سے ان کو تم پورا نہ کر سکو توکہیں سبکی نہ ہو جائے گزشتہ منگل کے دن رات گئے اسلام آباد میں اپنی میٹنگ کے اختتام پر پی ڈی ایم کے رہنماو¿ں نے جو بیان جاری کیا اس میں انہوں نے حتی الوسع یہ کوشش کی کہ عوام کو یہ تاثر دیا جاسکے کہ یہ سیاسی اتحاد بکھرا نہیں بلکہ اب بھی موجود ہے پر تاڑنے والے قیامت کی نظر رکھتے ہیں مولانا فضل الرحمن صاحب کا پریس کانفرنس کے دوران سٹیج چھوڑ کر چلے جانا عام آدمی کے سمجھنے کےلئے کافی تھا کہ وہ پی پی پی اور نواز لیگ کے رویہ سے سخت دل برداشتہ ہیں۔ زرداری صاحب کو اچھی طرح پتا تھا کہ دنیا ادھر سے ادھر ہو جائے میاں محمد نواز شریف موجودہ حالات میں لندن سے کبھی بھی پاکستان نہیں لوٹیں گے ‘زرداری صاحب جانتے تھے کہ نہ نو من تیل ہوگا نہ رادھا ناچے گی اگر یہ کہا جائے کہ پی ڈی ایم میں پہلی دراڑ پڑ چکی تو یہ مبالغہ آرائی نہ ہو گی۔اگر تو مجوزہ لانگ مارچ 26 مارچ کو شروع نہیں ہوتا کہ جس کو اب بمشکل آٹھ دن باقی رہ گئے ہیں تو اس کا پھر مطلب یہ ہوگا کہ لانگ مارچ نے اگر ہونا ہے تو پھر وہ کہیں جا کر ستمبر 2021 سے پہلے نہیں ہو سکتا اور اس کی بڑی وجہ یہ ہے کہ اپریل کے وسط سے رمضان المبارک کا مقدس مہینہ شروع ہو جائے گا اور اس کے بعد عید الفطر اور پھر ملک بھر میں سخت گرمی کا سیزن شروع ہو چکا ہوگا جس کے دوران احتجاج کرنے کےلئے سڑکوں پر نکلنا یا دھرنا دینا جان جوکھوں کا کام ہوتا ہے اور عام پبلک گرمی کی تپش میں سڑکوں پر آنا پسند نہیں کرتی اور پھر سب سے بڑی بات یہ ہے کہ کسی بھی سیاسی تحریک کی تال یا چال اگر ایک دفعہ ٹوٹ جائے تو اسے دوبارہ بحال کرنا کوئی آسان کام نہیں ہوتا مولانا فضل الرحمان صاحب نے پی ڈی ایم کی تخلیق میں کافی محنت کی اور بڑی مشکل سے متفرق سیاسی گروپوں کو یکجا کیا اب دیکھنا یہ ہو گا کہ وہ کون سا سیاسی حربہ استعمال کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں تاکہ اس سیاسی اتحاد کا شیرازہ نہ بکھرے یہ بات تو طے ہے کہ پی پی پی اور نواز لیگ میں ہمیشہ اچھے تعلقات کا فقدان رہا ہے اور ان کی آپس میں ان بن رہی ہے یہ تو عمران خان سے سیاسی دشمنی نے ان دونوں کو آ پس میں یکجا کر دیا تھا ان دو بڑی سیاسی جماعتوں کے علاوہ پی ڈی ایم میں دیگر کئی جماعتیں بھی موجود ہیں پر اسمبلیوں میں ان کی اتنی عدوی قوت نہیں کہ تن تنہا وہ حکومت وقت کےلئے کوئی مسئلہ بنا سکیں ان کے رہنماو¿ں نے اپنی دانست میں یہ فیصلہ کیا ہے کہ اپنی شناخت کروانے کےلئے وہ اگر پی ڈی ایم میں شامل ہوں تو بہتر ہے ویسے پی ڈی ایم میں شامل سیاسی جماعتوں کے سنجیدہ رہنماو¿ں کی یہ کوشش ہوگی کہ پی ڈی ایم کا وجود برقرار رہے وہ اس سیاسی اتحاد کو ایک ضرور ت سمجھتے ہیں انہیں اس حقیقت کا ادراک ہے کہ وہ تن تنہا حکومت وقت کا سیاسی طور پر شاید مقابلہ نہ کر سکیں اس اتحاد کو قائم رکھ کر البتہ وہ اسے ٹف ٹائم دے سکتے ہیں ۔پی ڈی ایم میں سردست جو اختلافات پیدا ہو چکے ہیں ان پر کسی کو بغلیں بجانے کی ضرورت نہیں البتہ عمران خان کا یہ کہنا بالکل بجاہے کہ پی ڈی ایم سے خطرہ نہیں مہنگائی بڑا چیلنج ہے پی ڈی ایم کے غبارے سے ہوا صرف ایک ہی صورت میں نکل سکتی ہے اور وہ اس طرح کہ آ نے والے دنوں میں حکمران گورننس کو ٹھیک کریں اور مہنگائی کے جن کو بوتل میں مضبوطی سے بند کریں ۔