پی ڈی ایم متحد ہے،جلد دوبارہ لانگ مارچ کا اعلان کرینگے، فضل الرحمن

پشاور:پوزیشن اتحاد پی ڈی ایم کے سربراہ مولانا فضل الرحمان کا کہنا ہے کی پی ڈی ایم متحد ہے پیپلزپارٹی نے استعفوں کے معاملے پر مشاورت کے لیے وقت مانگا ہے ان کی رائے آنے کے بعد دوبارہ لانگ مارچ کا اعلان کیا جائے گا۔

 پیپلزپارٹی جمہوری جماعت ہیں ہم چاہتے ہیں کہ نو جماعتوں کی رائے کا احترام کیا جائے۔

پشاور میں وکلاء کنونشن سے خطاب کرتے ہوئے مولانا فضل الرحمان نے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ اپوزیشن جماعتوں نے احتجاجی ریلیاں بھی نکالیں، جلسے بھی کیے امن مارچ بھی کیا اس دوران عوامی رائے کو دیکھتے ہوئے لانگ مارچ کا فیصلہ کیا کہ مارچ پنڈی کی جانب سے کیا جائے یا اسلام آباد کی جانب۔

 لانگ مارچ کی تیاریوں کے حوالے سے اجلاس میں پی ڈی ایم کا سربراہی اجلاس ہوا جس میں نو جماعتوں کی رائے تھی کہ لانگ مارچ کے ساتھ اسمبلیوں سے استعفے بھی دے جائیں لیکن پیپلزپارٹی نے استعفوں سے اتفاق نہیں کیا،انہوں نے کہا کہ پیپلزپارٹی کو مہلت دی گئی ہے کہ وہ اپنی سی ای سی کے سامنے 9 جماعتوں کی رائے رکھیں پیپلزپارٹی جمہوری جماعت ہے انھیں نو جماعتوں کے موقف کا احترام کرنا چاہیے۔

 پی ڈی ایم متحد ہے دس جماعتیں متحد ہوکر حکومت کے خلاف نکلیں گی۔

، مولانا فضل الرحمان کا کہنا تھا کہ قبائلی علاقوں کو صوبے میں ضم تو کردیا گیا لیکن پانچ سال ہوگئے قبائلیوں کو ایک روپیہ نہیں دیا گیا، ہم نے اس وقت ہی قبائلی علاقوں کے انضمام کو حقائق کے برعکس قراردیا۔

 آج قبائلی زمینوں سمیت کئی مسائل کا شکار ہیں اس وقت ساری جماعتیں قبائلی انضمام کے حق میں تھیں کیونکہ یہ بیرونی ایجنڈا تھا ایک جے یو آئی نے انضمام کی مخالفت کی۔

 انہوں نے دینی مدارس کے حوالے سے کہا کہ ہم چاہتے ہیں دینی مدارس کے طلبا جدید اور عصری علوم حاصل کریں، ہم انگریز اور ہندو سے آزاد تو ہوگئے ہیں لیکن ان کی سوچ سے آزاد نہ ہوسکے۔

نصاب کے نام پر دینی مدارس کو کمزور کرنے کی کوشش کی جارہی ہے انہوں نے کہا کہ جب حکمران بیرونی اینڈے پر کام کررہے تو اسلامی قوانین کیسے بنائے جاسکتے ہیں خیبرپختونخوا میں ہم نے حسبہ بل پاس کیا تو وفاقی حکومت عدالت چلی گئی ہمیں چار شقیں نکالنے کا کہا گیا ہم نے چار شقیں نکال کر نیا بل منظور کیا تو حکومت ایک بار بھی عدالت چلی گئی اور بل سے ایسی نکالنے کا کہا گیا کہ بل غیر موثر ہوگیا۔

 جب جج اور جرنیل اسلامی قوانین کو جام کرنے کی کوشش کریں گے کیسے اسلامی قوانین بنیں گے اسلامی نظریاتی کونسل نے چھ ہزار سے زائد قوانین کا مطالعہ کیا ہے اور رپورٹ پارلیمنٹ میں آتی ہیں لیکن ایک قانون بھی اسلامی نظریاتی کونسل کی سفارشات پر نہیں بنائے جاتے جب حکومتیں ہی ایسی بنیں گی جن کی ترجیحات ہی اسلامی قوانین بنانا نہیں تو پارلیمنٹ کیسے اسلامی قوانین کی منظوری دے گی