سیاست کے بدلتے رنگ۔۔۔

سابق وزیر اعظم راجہ پرویز اشرف کہتے ہیں ایوانوں کو بھی نہیں چھوڑیں گے سڑکوں کو بھی گرم کریں گے مولانا عبدالغفور حیدری صاحب فرماتے ہیں‘ پیپلز پارٹی مستقبل میں پی ڈی ایم کے ساتھ نہیں چل سکے گی اس قسم کے بیانات سے تو یہ اندازہ ہوتا ہے کہ شاید اب پی پی پی کا پی ڈی ایم کی دیگر سیاسی جماعتوں کے ساتھ اکٹھا رہنا نا ممکن ہو گا کہ پی ڈی ایم میں ایک ایسا سنجیدہ طبقہ ضرور موجود ہے جو یہ چاہتا ہے کہ یہ سیاسی اتحاد نہ ٹوٹے جس کےلئے وہ حتی الوسع یہ کوشش کرے گا کہ پیپلز پارٹی اور نواز لیگ کے درمیان دو بارہ مفاہمت ہو جائے جہاں تک لانگ مارچ کا تعلق ہے اس کا خطرہ ابھی تک حکومت کے سر سے سو فیصد ٹلا نہیں مولانا فضل الرحمان کا یہ بیان بڑا معنی خیز ہے کہ دوبارہ لانگ مارچ کا اعلان ہوگا ادھر رانا ثناءاللہ یہ کہہ رہے ہیں کہ اگر پی پی پی نہ مانی تو 9 جماعتیں استعفوں کا فیصلہ کریں گی اور یہ کہ اگر نو جماعتیں اسمبلیوں سے استعفے دے دیتی ہیں تو ملک میں عام انتخابات ناگزیر ہو جائینگے گو کہ میڈیا میں اس قسم کی خبریں بھی چھپ رہی ہیں کہ مولانا فضل الرحمن نے پی ڈی ایم کی صدارت چھوڑنے کی دھمکی دی ہے پر ہماری دانست میں اس قسم کی خبروں میں کوئی زیادہ صداقت نظر نہیں آتی سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اگر مولانا صاحب پی ڈی ایم کی صدارت کو چھوڑ دیتے ہیں تو ان کے اس عمل سے تو پھر ان کا سیاسی آشیانہ بالکل ختم ہو جائے گا پی ڈی ایم کے صدر کی حیثیت سے کم ازکم وہ 24 گھنٹے خبروں میں تو رہتے ہیں جوں جوں عام انتخابات کی تاریخ نزدیک آتی جائے گی ان کا زیادہ سے زیادہ خبروں میں رہنا ان کےلئے بہت ضروری ہے اور اس بات کو مولانا صاحب سے زیادہ دوسرا کوئی سیاستدان بہتر نہیں سمجھ سکتا کئی سیاسی مبصرین کے مطابق الیکشن کمیشن کے ہاتھ میں پاکستان تحریک انصاف کے خلاف فارن فنڈنگ کیس ترپ کے پتے کے موافق ہے اور اس میں اگر فیصلہ حکومت کے خلاف آجاتا ہے تو ایوان اقتدار میں ایک سیاسی بھونچال آنے کا خدشہ موجود ہے قصہ کوتاہ سر دست ملک کے سیاسی حالات غیر یقینی صورتحال کا شکار ہیں اور وثوق سے کچھ نہیں کہا جا سکتا کہ مستقبل قریب میں کیا ہو گا اور اونٹ کس کروٹ بیٹھے گا‘ دوسرا اہم معاملہ یہ ہے کہ عام آدمی ملک سے جلد از جلد کرپشن کا خاتمہ چاہتا ہے اورجہاںتک کچھ اہم مقدمات کی طوالت کا معاملہ ہے تو یہاں استغاثے پر اہم ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ جس کیس کو بھی عدالتوں میں لے جائے اسے مکمل ثبوتوں کے ساتھ اور پوری تیاری کے ساتھ لے جایا کرے۔ عدالتوں کا اس ضمن میں کوئی قصور نہیں ہے اگر مدعی ہی سست ہو جائے تو پھر عدالتیں کیا کریں اس ضمن میں اس بات کا ذکر کرنا بھی ضروری ہے کہ ہمارے ہمارے ہاں جو جوڈیشل سسٹم نافذ العمل ہے اس کا بنیادی کلیہّ یہ ہے کہ بے شک دس میں سے نو گناہ گار بری ہو جائیں تو کوئی قباحت نہیں پر ایک بے گناہ پھانسی نہ ہو ۔جہاں اس قدر احتیاط کا ماحول ہو وہاں پر کمزور کیس کا فائدہ یقینا ان کو ہوگا جن کے خلاف کمزور کیس بنایا گیا ہو اور یہ ذمہ داری استغاثہ پر عائد ہوتی ہے۔