اگر بفرض محال الیکشن کمیشن کے اراکین حکومت کی بات مان کر اگر اپنے مناصب سے مستعفی ہو جاتے ہیں تو ملک میں جو ضمنی الیکشن ہو نے والے ہیں انہیں کون منعقد کرائے گا ‘اگر کوئی حکومت کے اس اقدام کے خلاف عدالت عالیہ یا عدالت عظمیٰ میں چلا جاتا ہے اور وہ اس پر کوئی حکم امتناعی جاری کر دیتے ہیں تو پھر کیا بنے گا‘۔ اگر تو حکمران پارٹی کے پاس کوئی اس قسم کا ثبوت موجود ہے کہ الیکشن کمیشن کا کوئی رکن کسی غیر آئینی حرکت میں ملوث ہے تو اس کے خلاف اپیلیٹ اتھارٹی کے پاس اپیل کی جا سکتی ہے‘اگلے روز ایک سیاسی پارٹی کے ورکرز نے وزیراعظم کے معاون خصوصی ڈاکٹر شہباز گل کے اوپر انڈے اور کالی سیاہی پھینکی اس سے قبل نواز لیگ کے رہنما احسن اقبال پر جوتا پھینکا گیا تھا یہ روش اس اخلاقی گراوٹ کا زندہ ثبوت ہے جو ہمارے سیاسی کلچر کے رگ و پے میں سرایت کر چکی ہے اور اگر اسے لگام نہ دی گئی تو پھر اس ملک میں صرف جنگل کے قانون کا ہی راج ہو گا حیرت کی بات یہ ہے کہ عدلیہ اور پارلیمان اس قسم کی بابندی کیوں نہیں عائد کرتے کہ عدالتوں اور پارلیمان کے احاطوں میں غیر متعلقہ لوگ نہ جمگھٹے لگا سکتے ہیں اور نہ ہی کوئی سیاسی جلسہ کر سکتے ہیں اگر کسی کو پریس کانفرنس کرنے کا شوق ہے تو وہ بے شک کسی پریس کلب چلا جائے یا پھر کسی ہوٹل میں اس کا بندوبست کر کے اپنا یہ شوق پورا کر لے دکھ کی بات یہ ہے کہ مندرجہ بالا قسم کی غیر قانونی حرکات وہ لوگ کر رہے ہیں کہ جو اپنے آپ کو اہم کہتے ہیں یہ تمام سیاست دانوں کا فرض ہے کہ وہ اپنے اپنے ورکروں کو اخلاقیات کا سبق سکھائیں اور انہیں باور کر وائیں کہ وہ اپنے سیاسی حریفوں کے خلاف ایسے جملے قطعاً استعمال نہ کریں کہ جو ان کی کردار کشی کے مترادف ہوں جو لوگ دشنام طرازی میں ملوث ہیں وہ یہ نہ بھولیں کہ تلوار کے زخم تو بھر جاتے ہیں پر زبان سے لگائے ہوئے گھاؤ کبھی نہیں بھرتے ہر انسان گوشت پوست کا لوتھڑا ہوتاہے اس سے کئی لغزشیں ہوئی ہوتی ہیں اگر وہ کسی کے خلاف اپنی ایک انگلی اٹھائے گا تو باقی چار انگلیاں اس کے خلاف بھی اٹھ سکتی ہیں اور آئیے اب ذرا کورونا کے بارے میں چند اہم باتوں کا ذکر ہو جائے کہ جس کی تیسری لہر نے آج کل وطن عزیز کو اپنی گرفت میں لے رکھا ہے اگر آپ اس معاملے کو ذرا باریک بینی سے دیکھیں تو آپ اس نتیجے پر پہنچیں گے کہ صرف وہ ممالک اس وبا پر قابو پانے میں کامیاب ہوئے ہیں جنہوں نے ابتدا ء میں سے ہی اس حوالے سے ٹھوس اقدامات اٹھائے تھے ہمارے لئے ضروری تھا کہ ہم اس وقت بین الاقوامی سفر پر پابندی لگاتے جب یہ وباء پھوٹی تھی اس ضمن میں نیوزی لینڈ اور آسٹریلیا کی مثال ہمارے سامنے ہے انہوں نے ابتدا ء سے ہی بین الاقوامی سفر پر یہ پابندی لگا دی تھی جن کا وہ آج فائدہ اٹھا رہے ہیں ہم نے ابتدا ء میں اس حوالے سے تاخیر سے کام لیا اس لئے یہ وائرس پاکستان پہنچ گیا اب صورت حال یہ ہے کہ صرف وہی ممالک اس وبا ء پر قابو پانے میں کامیاب ہو رہے ہیں جنہوں نے ویکسین کا عمل تیزی سے شروع کر دیا ہے اس ضمن میں تھوڑی سی بھی سستی وطن عزیز کے لئے سم قاتل ثابت ہو سکتی ہے۔