چند روز قبل لاہور میں وزیر اعظم صاحب کے معاون خصوصی ڈاکٹر شہباز گل پر انڈوں سے حملہ کیا گیا اور اب اگلے روز پشاور میں کیپٹن صفدر کے ساتھ یہی واقعہ پیش آیا ظاہر ہے کہ یہ پشاور والا واقعہ لاہور والے واقعے کے ردعمل کے طور پر واقع ہوا ہے اس رحجان اور روش کو اگر سیاسی پارٹیوں کے رہنماو¿ں نے ختم کرنے کی کوشش نہ کی تو اس قسم کے واقعات مستقبل میں بھی خارج از امکان قرار نہیں دئیے جاسکتے یہ بدقسمتی کی بات ہے کہ اس ملک میں برداشت میانہ روی اور دوسروں کے نقطہ نظرکو حوصلے کے ساتھ سننے کا مادہ ہم میں من حیث القوم ختم ہوتا جا رہا ہے اس صورت حال کےلئے سیاسی پارٹیوں کے اکثر رہنما بھی کافی حد تک ذمہ دار ہیں جو اپنی تقاریر میں غیر پارلیمانی الفاظ استعمال کرتے رہتے ہیں جن سے ان کے سیاسی حریفوں کے جذبات کو ٹھیس پہنچتی ہے اور وہ پھر بدلہ لینے کےلئے اپنے سیاسی مخالفین کے ساتھ وہی سلوک کرتے ہیں کہ جو ان کے ساتھ ان کے سیاسی حریفوں نے کیا ہوتا ہے سیاسی مخالفین کے خلاف الفاظ کے استعمال میں نہایت احتیاط برتنی چاہئے دوسری جنگ عظیم کے دوران جرمنی کا ڈکٹیٹر ہٹلر اتحادی ممالک کے لیڈر اور برطانیہ کے وزیر اعظم سر ونسٹن چرچل کے خلاف نہایت گندی زبان استعمال کیا کرتا تھا یہاں تک کہ وہ انہیں گالیاں تک نکالتا تھا ایک مرتبہ جب ایک اخباری نمائندے نے چرچل کی توجہ ان کے خلاف ہٹلر کی ہرزہ سرائی کی طرف مبذول کرائی تو برطانوی وزیر اعظم نے اس سے کہا کہ لگتاہے کہ ہٹلر کی پرائمری ایجوکیشن درست نہیں ہوئی کچھ اسی قسم کا جواب اقوام متحدہ کے جنرل سیکرٹری ڈاگ ہینرشولڈ نے بھی ایک مرتبہ ایک اخباری نمائندے کو دیا تھا ہوا یوں تھا کہ اس وقت کے سویت یونین کے وزیراعظم نکتیا خروشیف اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں خطاب کر رہے تھے اور اپنی تقریر کے دوران جوش خطابت میں انہوں نے اقوام متحدہ کے جنرل سیکرٹری کو برے الفاظ سے یاد کیا۔ اجلاس کے اختتام پر جب ایک اخباری نمائندے نے اقوام متحدہ کے جنرل سیکرٹری سے یہ سوال کیا کہ انہوں نے سوویت یونین کے وزیراعظم کی گالی کے جواب میں ان کو اجلاس سے باہر کیوں نہیں نکالا کیوں کہ قانون کے تحت وہ ایسا کرنے کے مجاز تھے تو انہوں نے کہا کہ لگتا ہے کہ میری پرائمری ایجوکیشن خروشیف کی پرائمری ایجوکیشن سے بہتر انداز میں ہوئی ہے اب اس قسم کا رویہ جو کہ چرچل یا ڈاگ ھینرشولڈ نے اختیار کیا تھا وہ صیح معنو ں ایک پڑھا لکھا شخص ہی اختیار کر سکتا ہے سیاست کی بھی اپنی ایک اخلاقیات ہوتی ہیں نہایت معذرت اور افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ ہمارے اکثر سیاستدانوں نے اس ضمن میں اپنے اپنے سیاسی ورکرز کی تربیت پر کما حقہ توجہ نہیں دی جس کی وجہ سے آج ملک کی سیاست سخت انتشار اور پولرائزیشن کا شکار ہے ۔ حکومت اس مغالطے میں نہ رہے کہ پی ڈی ایم کی بلا جو اس کے سر پر منڈلا رہی تھی ٹل چکی ہے سیاست میں حرف آخر نہیںہوتا حالات بدلتے کچھ وقت نہیں لگتا یہ بھی ممکن ہے کہ سردست مولانا صاحب پی پی پی کو قومی اسمبلی کی نشستوں سے استعفے دینے پر راضی کر لے رمضان کی آمد آمد ہے کیا حکومت اشیاءخوردنی کی قیمتوں کو اعتدال پر لانے کی اپنی گوشش میں کامیاب ہو سکے گی یقینا یہ مقدس مہینہ اس کےلئے امتحان کا وقت ہے۔