سیاسی بقا ء 

 پی ڈی ایم کا محاذ اپوزیشن کی تقریباً تقریباً تمام سیاسی جماعتوں کو اپنی سیاسی بقا کا ایک فورم فراہم کرتا ہے یہ ان سب کیلئے وقت کی ضرورت ہے اس محاذ میں شامل اکثر سیاسی پارٹیاں مشکل دور سے گزر رہی ہیں اور ان کی قیادت کو اچھی طرح پتا ہے کہ آئندہ الیکشن انہوں نے اگر انفرادی حیثیت سے لڑا تو شاید ان کو اس میں اسمبلیوں میں اتنی نشستیں نہ مل سکیں کہ جتنی انہیں پی ڈی ایم کے پلیٹ فارم سے الیکشن لڑنے کی صورت میں مل سکتی ہیں ہو سکتا ہے کہ اس فورم میں شامل دو بڑی سیاسی جماعتوں یعنی کہ پی پی پی اور نواز لیگ کے بعض رہنماؤں کی اس معاملے میں سوچ ذرا مختلف ہو پر حقیقت یہ ہے کہ آج اس محاذمیں شامل کئی سیاسی پارٹیوں کو اپنی سانس کی بحالی کیلئے پی ڈی ایم کی شکل میں وینٹی لیٹرز مل گئے ہیں جماعت اسلامی گو کہ پی ڈی ایم کا حصہ نہیں پر آئندہ الیکشن سے قبل ا سے بھی یہ فیصلہ کرنا ہوگا کہ اس نے آئندہ الیکشن اکیلے اپنے ہی سر پر لڑنا ہے یا کسی سیاسی محاذ کے ساتھ اتحاد کر کے اس کے پلیٹ فارم سے لڑنا ہے چار اپریل کو پیپلزپارٹی نے یہ فیصلہ کرنا ہے کہ کیا وہ اپنے اس موقف پر اب بھی قائم ہے کہ اسمبلیوں سے استعفے نہ دیئے جائیں اور وہ لانگ مارچ کو استعفوں کے ساتھ یکجا کرنا نہیں چاہتی مولانا فضل الرحمان صاحب نے ایک نہایت ہی گہری چال چلی ہے اور وہ یہ کہ انہوں نے پیپلزپارٹی کو یہ پیش کش کی ہے کہ بے شک وہ سندھ اسمبلی سے سردست دستبردار نہ ہو اور وہاں پر اپنی حکومت قائم رکھے پر وہ پہلے مرحلے میں صرف قومی اسمبلی کی نشستوں سے دستبردارہو جائے۔ مولانا صاحب کا یہ خیال ہے کہ اس پیشکش کو اگر پیپلزپارٹی قبول کرلے تو سانپ بھی مر جائے گا اور لاٹھی بھی نہ ٹوٹے گی پی پی پی کا بھی اس ایشو پر بھرم رہ جائے گا اور پی ڈی ایم میں شامل دیگر جماعتوں کی بھی فیس سیونگ ہو جائے گی وہ پی ڈی ایم کو مزید کسی انتشار سے بچانے کی جو کاوش کر رہے ہیں اتنی کوشش اس محاذ کا کوئی اور لیڈر نہیں کر رہا گزشتہ اتوار کو ان کی مریم نواز سے جاتی عمرہ میں ملاقات اسی سلسلے کی کڑی تھی دراصل مولانا صاحب جانتے ہیں کہ پی ڈی ایم اگر موجودہ بحران سے باہر نکل آتی ہے تو اس سے ان کے اپنے سیاسی کیرئر کو بھی کافی حد تک تقویت ملے گی کیونکہ مولانا شیرانی اور حافظ حسین احمد اور دیگر چند اہم سیاسی شخصیات کے جے یو آئی چھوڑنے سے جمعیت کو نقصان پہنچنے کا جو تاثر ملا اسے زائل کیا جا سکے گا۔ حکمران پارٹی کا اقتدار میں جو آخری سال ہوتا ہے وہ الیکشن کی تیاریوں کی نذرہو جاتا ہے اس لحاظ سے اگر دیکھا جائے تو موجودہ حکومت جو 2018 میں برسراقتدار آئی تھی اب اس کے پاس سال رواں کا باقی ماندہ عرصہ اور 2022 کا سال رہ گیا ہے بالفاظ دیگر ایک سال اور آٹھ مہینے رہ گئے ہیں 2023 کو آپ شمار نہ کریں کہ اقتدار کا آخری سال الیکشن کی تیاری اور اس سے جڑے ہوئے جھنجھٹ کا سال ہوتاہے پی ڈی ایم قیادت کی اب یہ حکمت عملی ہوگی کہ وہ اس باقیماندہ عرصے میں کہ جواب دن بہ دن گھٹ رہا ہے اپنی تحریک کو ڈھیلا نہ کرے بالفاظ دیگر وہ سیاست کا بازار گرم رکھے گی جس کیلئے وہ وقتاً فوقتاً ملک کے مختلف شہروں میں جلسے کرے گی اور حکومت کے ہر اقدام کو تنقید کا نشانہ بنانے گی پی ڈی ایم کے کئی رہنماؤں نے اس بات کا برملا اظہار کیا ہے کہ وہ حکومت وقت کو سکھ کا سانس لینے نہیں دیں گے اور اس پر دباؤ بڑھاتے رہیں گے ان حقائق کے پیش نظر ہمیں تو کبھی کبھی لانگ مارچ اور استعفوں کی باتیں بے معنی نظر آرہی ہیں سیاسی تندور گرم رکھنے کیلئے یہ لوگ اس قسم کی باتیں تو کرتے رہیں گے تاکہ حکومت وقت پر سیاسی دباؤ جاری رہے لیکن اندرون خانہ ان لوگوں کی نظر اب آئندہ الیکشن پر ہی ہوگی کہ جو اب دن بدن قریب آتا جا رہا ہے۔ اور دیکھا جاے تو حزب اختلاف کا کام ہی یہی ہے کہ وہ آنے والے وقتوں کیلئے منصوبہ بندی کرے اور اس وقت پی ڈ ی ایم اس منصوبے پر عمل پیراہے۔ ایسے میں اب حکومت کی بھی ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ بھی باقی ماندہ عرصے کو ترقی اورخوشحالی کے ایسے منصوبوں کو پروان چڑھانے میں صرف کرے جس سے عوام کو خاطر خواہ فائدہ ہو اور حکومت کو اپنے وعدوں کو پورا کرنے کا موقع ملے۔ سچ تو یہ ہے کہ حکومت کو جو اب تک موقع ملا ہے اس سے خاطر خواہ فائدہ نہیں اٹھایا جاسکا اور زیادہ تر وقت مختلف بحرانوں کا سامنا رہا جس میں کورونا وبا بھی شامل ہے جس نے تمام ترقیاتی کاموں کو بریک لگائے رکھے جس سے ہر شعبہ زندگی کو نقصان کا سامنا کرنا پڑا۔ ایک اور اہم مسئلہ تعلیمی اداروں میں علم دوست ماحول کوپروان چڑھانا ہے۔جس میں حکومت اور حزب اختلاف سب پر ذمہ داری عائد ہوتی ہے۔تجربہ یہ بتاتا ہے کہ ماضی میں تعلیمی اداروں میں سٹوڈنٹ یونینز کے نام پر سیاسی پارٹیاں ان اداروں کے انتظامی امور میں سیاسی مداخلت کرتی رہیں اور بعض جگہوں پر تو یہ یونینز اتنی مضبوط ہو گئی تھیں کہ وہ تعلیمی اداروں میں ہر تعلیمی سیشن کے دوران طلبہ کے داخلوں میں بھی سفارش کرتیں کیا یہ حقیقت نہیں کہ اصولی طور پر تو طلبہ یونینز کا بس اس حد تک کام محدود ہونا چاہیے کہ وہ تعلیمی اداروں میں صرف مختلف سماجی مسائل پر بحث و مباحث کیلئے مباحثوں کا بندوبست کریں اور ان میں بہترین مقرر کو انعامات دئیے جائیں تعلیمی اداروں کی انتظامیہ ان کے لیے تعلیمی اداروں میں ان کی ذہنی نشونما کیلئے ایک تعلیمی نوعیت کا میگزین بھی شائع کر ے جس میں شعر و ادب سے شغف رکھنے والے طلبہ کو لکھنے کا موقع فراہم کیا جائے اسی طرح ہر تعلیمی ادارے میں طلبہ کو مختلف کھیلوں کے مواقع مہیاکئے جائیں۔ حقیقت یہ ہے کہ یہ طلبہ ہی ہیں جن کے کندھوں پر مستقبل کی ذمہ داریاں پڑنے والی ہیں اور انہوں نے ہی اس ملک کو سنبھالنا ہے۔ جس کیلئے ضروری ہے کہ ان کی تعلیم و تربیت کا ٹھوس بنیادوں پر انتظام ہو اور ان کو مستقبل کی ذمہ داریوں کیلئے تیار ہونے کا بھرپور موقع ملے۔