ایف بی آر کے سابق چیئرمین شبر زیدی کی اس تجویز میں کافی وزن ہے کہ 1973 کے آئین نے ڈیلیور نہیں کیا اس سے عوام کے مسائل کماحقہ حل نہیں ہوئے اور یہ کہ ملک کو ایک نئے عمرانی معاہدے کی ضرورت ہے کسی بھی ملک کا آئین یا دستور جامد نہیں رہ سکتا وقت کا دھارا اپنے ساتھ ساتھ تبدیلیاں لاتا رہتا ہے نئے نئے مسائل جنم لیتے رہتے ہیں اور اگر ان مسائل کا حل ملک کا آئین یا دستور فراہم نہیں کرتا تو اس ملک کے ارباب اختیار پارلیمنٹ کے ذریعے اس میں وقت کے تقاضوں کے مطابق ترمیمات یا تبدیلیاں لاتے رہتے ہیں آئین اور دستور بھی آخر انسانوں نے بنایا ہوتا ہے اور انسان خطا کا پتلا ہے کیا اس سے لغزشیں نہیں ہو سکتیں ہمیں یہ لکھنے میں کوئی باک نہیں کہ آئین صرف اسی صورت میں حقیقی طور پر عام آ دمی کے مفادات کی عکاسی کرے گا کہ جب اسے وہ لوگ ڈرافٹ کریں گے کہ جو واقعی عوام کے صحیح معنوں میں نمائندے ہوں گے ہمارا المیہ تو یہ ہے کہ یہاں تو جو لوگ ہماری پارلیمنٹ کا حصہ بنتے ہیں ان میں تو اکثریت ان افراد کی ہوتی ہے کہ جو عوام کے بجائے خواص کے مفادات کا خیال رکھتے ہیں کیونکہ ان کا اپنا تعلق اشرافیہ سے ہوتا ہے الیکشن میں غریب کا ووٹ حاصل کرنے کیلئے وہ ایک آدھ بار اس کے ٹوٹے پھوٹے گھر کا چکر تو ضرور لگاتے ہیں پر اس کے بعد رات گئی بات گئی والی بات ہو جاتی ہے تو کون اور میں کون والا ماجرا ہو جاتا ہے۔ کیا اس ملک میں کبھی بھی بے زمین کسانوں‘ ہاریوں‘ مل مزدوروں اور ان طبقات سے تعلق رکھنے والے افراد کیلئے پالیمنٹ کے قوانین میں اس قسم کی گنجائش کبھی رکھی گئی کہ صرف ان طبقوں کے حقیقی نمائندے ہی ان کی طرف سے رکن اسمبلی بنیں گے وطن عزیز میں تو بڑے بڑے جاگیردار اور زمیندار اس بات کا دم بھرتے ہیں کہ وہ معاشی طور پر پسے ہوئے طبقات کی بھی نمائندگی کرتے ہیں پر حقیقت میں ایسا نہیں ہے۔ خان ‘ وڈیرا یا چودھری مزارع کی نمائندگی کبھی نہیں کر سکتا ہمارا آ ئین ہی کچھ ایسا مرتب کیا گیا ہے کہ اس میں مندرجہ بالا باریکی کا خیال نہیں رکھا گیا کسی سرمایہ دار سے بھلا یہ کیسے توقع رکھی جا سکتی ہے کہ وہ اسمبلی میں بیٹھ کر کوئی ایسی قانون سازی کرے گا کہ جس سے ملک کے عام آدمی کا کوئی بھلا ہو۔ وقت آ گیا ہے کہ اس ملک کیلئے ایسا ٓآئین مرتب کیا جائے کہ جس کے تحت اسمبلیوں میں ہر طبقے کی مناسب نمائندگی ہو اس مقصد کے حصول کیلئے متناسب نمائندگی کی بنیاد پر بعض ممالک میں الیکشن کروائے جاتے ہیں ایک مرتبہ جب اس قسم کے کسی اصول کی بنیاد پر مرتب کئے آئین کے تحت ملک میں الیکشن ہوں گے اور لوگوں کے مختلف طبقوں سے تعلق رکھنے والے پارلیمانی نظام کا حصہ بنیں گے تو پھر وہ افرادہی اس ملک کیلئے کوئی ایسا عمرانی معاہدہ ترتیب دے سکیں گے کہ جو عوام کے جذبات کی عکاسی کرے اسے پھر عوامی امنگوں کے مطابق بنا ہوا آئین کہا جا سکے گا یہی وجہ ہے کہ اس ملک کے خیرخواہ اس بات کا تقاضا کرتے ہیں کہ وطن عزیز میں آئینی اصلاحات کی ضرورت ہے اس ضمن میں سپیکر کے عہدے کو بالکل غیر جانبدار بنانے کےلئے ضروری ہے کہ جب اس کا انتخاب ہو جائے تو اپنے عہدے کا حلف لینے سے پہلے اس پارٹی سے استعفیٰ دے دےنا چاہئے کہ جس کے ٹکٹ پر اس کا انتخاب ہوا ہے اس ضمن میں بعض صحیح معنوں میں جمہوری ممالک نے آئینی طور پر کافی کام کیا ہے جس سے ہم استفادہ کر سکتے ہیں اور اب جاتے جاتے ذرا ایک نہایت ہی اہم معاملے کا ذکر ہو جائے تو بے جا نہ ہوگا اور وہ ہے ملک کی آبادی میں تیزی سے اضافے کے معاملہ کا اس سلسلے ہمیں بنگلادیش سے سبق لینا چاہیے کہ جس نے کمال ہوشیاری اور دور اندیشی سے اس پر کنٹرول کر لیاہے جس سے وہاں اگر ایک طرف غربت میں خاطر خواہ کمی آئی ہے تو دوسری طرف اب وہاں98 فیصد بچے سکول جا رہے ہیں افسوس کے ساتھ لکھنا پڑتا ہے کہ ایسا دکھائی دیتا ہے کہ جیسے یہ مسئلہ حکومت کی ترجیحات میں شامل ہی نہیں‘ بھلے ہم زندگی کے ہر شعبے میں کتنی ہی اصلاحات کیوں نہ کر لیں بھلے ہماری معیشت کتنی ہی ترقی کیوں نہ کر لے اگر ہماری آبادی کی رفتار میں خاطر خواہ کمی واقع نہ ہوئی تو یہ تمام ترقی بے سود ثابت ہو گی۔