یہ روش اچھی نہیں کہ کسی ملزم کو اگر کوئی عدالت کسی الزام کی صفاہی دینے کیلئے ثمن بھجوائے اور وہ عدالت میں پیشی کے روز اپنے ساتھ ایک لشکر جرار لے جائے محض اس لئے کہ وہ عدالت کو مرعوب کر سکے اس قسم کا سیاسی کلچر ماضی میں نہ تھا یہ موجودہ زمانے کی پیداوار ہے اور اس کی جتنی بھی مذمت کی جائے کم ہے ماضی میں یار لوگوں نے عدالت عظمیٰ تک کو نہ چھوڑا اور اس کی عمارت پر بھی دھاوا بولا تھا اگر اس واقعے کے بعد حکومت مناسب قانون سازی کر لیتی تو آج عدالتوں کے سامنے متحارب سیاسی گروپوں کی آپس میں گتھم گتھا نہ ہوتی وطن عزیز میں اک عرصے سے انہونی اور عجیب عجیب قسم کی باتیں ہو رہی ہیں عدالتوں میں ججوں کو مارا پیٹا جا رہا ہے بڑے چھوٹے کی تو جیسے تمیز ہی باقی نہیں رہی کیا یہ ہمارے رہنماﺅں کی ڈیوٹی نہیں بنتی بھلے ان کا تعلق کسی بھی جماعت سے ہی کیوں نہ ہو کہ وہ کھل کر اس روش کے خلاف آواز اٹھائیں کیا وکلا برادری اور جج صاحبان یکجا ہو کر اس قسم کا سسٹم نافذ نہیں کر سکتے کہ عدالتوں کے احاطوں میں کوئی سیاسی نعرہ بازی نہ ہو گی اور نہ ہی ان احاطوں کے اندر کوئی پریس کانفرنس کی جا سکے گی جس کسی کو بھی تقریر کرنے کا شوق ہو وہ اپنا مجمع کسی اور جگہ لگائے اصولی طور پر تو ہونا یہ چاہئے کہ عدالت کی کاروائی کے دوران صرف متعلقہ فریقین اور ان کے وکلاءکو اجازت ہونی چاہئے کہ وہ عدالت کے احاطے میں اگر موجود رہنا چاہیں تو بے شک رہیں اس کے علاوہ غیر متعلقہ لوگوں کو عدالت کے احاطے میں گھسنے کی اجازت نہ دی جائے کہ اس سے عدالت کی کاروائی میں رکاوٹ پڑ سکتی ہے اور اس پر منفی اثر بھی پڑ سکتا ہے۔ یہاں ہر اس بات کا ذکر بھی ضروری ہے کہ نیب ہو یا کوئی اور تحقیقاتی ادارہ ان کی میگا کرپشن مقدمات میں تحقیقات غیر معمولی التواکا باعث بن رہی ہے اور اس کا بالو واسطہ یا بلا واسطہ فائدہ ملوث ملزمان کو پہنچ رہا ہے اور اس سے حکومت وقت کی ساکھ بھی بری طرح متاثر ہو رہی ہے ۔وطن عزیز میں کورونا کی شدت میں ایک مرتبہ پھر اضافہ دیکھنے میں آیا ہے اور اس کی سب سے بڑی وجہ یہ ہے کہ بحیثیت قوم ہم اس کو روکنے یا اس کا مقابلہ کرنے کےلئے جو ضروری ایس او پیز ہیں ان پر عمل درآمد کرنے سے گریز کر رہے ہیں ماسک خریدنے یا اسے استعمال کرنے میں بھلا کتنے پیسے لگتے ہیں جمگھٹوں میں نہ جانے سے بھلا آپ کا کیا نقصان ہوتا ہے صرف ان دو باتوں پر ہی اگر من حیث القوم ہم نے عمل کرنا شروع کر دیا تو اگر سو فیصد نہیں تو 80 فیصد تک کورونا وائرس کے حملوں سے ہم بچ سکتے ہیں اس ضمن میں اب تک تو عام تاثر یہ ہے کہ اس وبا سے لوگوں کو بچانے کےلئے جو ویکسین استعمال کی جارہی ہے وہ چین سے آئی ہے اور چونکہ چین نے یہ ویکسین بغیر کسی معاوضے کے سپلائی کی ہے اس لیے اب تک لوگوں کو یہ ویکسین بغیر کوئی پیسے لئے لگائی جا رہی ہے پر اب اگر پرائیویٹ سیکٹر اس ویکسین کو کسی اور ملک سے یعنی روس سے امپورٹ کرتا ہے تو اس کو دو دفعہ لگوانے کےلئے ہر شخص کو اپنی جیب سے تقریبا نو ہزار روپے دینے ہوں گے اور اگر حکومت نے اس پر سبسڈی بھی دے دی تو پھر بھی اس پر چار سے پانچ ہزار روپے تک کا اضافی مالی بوجھ پڑ سکتا ہے اب غریب آدمی کی جیب پر پانچ ہزار روپے کا اضافی بوجھ بھی بہت بڑی چیز ہے بہتر ہوگا اگر اس ضمن میں حکومت زیادہ سے زیادہ سبسڈی دے تاکہ غریب آدمی کو مالی مشکلات کا سامنا نہ کرنا پڑے۔ہمیں یہ خبر سن کر قطعاً حیرت نہیں ہوئی کہ براڈ شیٹ کمپنی کو جعلی ادائیگی کا سرکاری ریکارڈ غائب کر دیا گیا ہے اس ملک میں اس قسم کے کام روز اول سے تواتر سے ہو رہے ہیں ہیں غلط کام کرنے والے اپنے غلط کاموں کے تمام شواہد اوراس کے ریکارڈ کو جلا کر ختم کر دیتے ہیں تا کہ نہ رہے بانس اور نہ بجے بانسری براڈ شیٹ کمیشن کی رپورٹ پبلک ہونے کے بعد اٹارنی جنرل اور وزارت قانون کو اپنے اندر احتساب کرنا ہوگا ان اداروں کے اس کھیل میں شامل تمام افراد کو بھی کٹہرے میں لانا ہوگا ۔