وزیر سائنس و ٹیکنالوجی فواد چوہدری صاحب فرماتے ہیں کہ کوررونا وائرس کےلئے پرائیویٹ طور پر ویکسین کی درآمد کی اجازت اس لیے دی گئی ہے کہ جو لوگ لائن میں نہیں لگنا چاہتے وہ پیسے دیں اور لگوائیں ظاہر ہے اس ملک میں اشرافیہ سے تعلق رکھنے والے لوگ ہی لائن میں کھڑے ہونا اپنی توہین سمجھتے ہیں اور اپنے سے آگے کھڑے ہونے والے کو کہنی مار کر اس سے آگے جانے کی کوشش کرتے ہیں اور پھر وہ ہی اتنی مالی استطاعت رکھتے ہیں کہ پرائیویٹ ہسپتالوں میں لگنے والی مہنگی ویکسین کا خرچہ برداشت کر سکیں اس ضمن میں کئی سوال اٹھتے ہیں جن کا پارلیمنٹ کے فلور پر جواب دینا حکومت کا فرض بنتا ہے کیا جو ویکسین عوام الناس کو لگائی جا رہی ہے وہ چین نے بغیر کسی قیمت کے پاکستان کو سپلائی کی ہے یا ہماری حکومت نے چین کو اس کی قیمت خرید ادا کی ہے اور اگر کوئی رقم ادا کی گئی ہے تو وہ کتنی ہے کیا مستقبل میں چین پاکستان کو کورونا وائرس کی ویکسین بغیر کسی قیمت کے سپلائی کرے گا اس ضمن میں حکومت نے جو فنڈ قائم کیا تھا عوام کی طرف سے اس میں کتنی رقم بطور چندہ وصول کی گئی ہے حکومت کی طرف سے جو ویکسین عوام کو مفت لگائی جا رہی ہے اس کے بارے میں تو چلو باقاعدہ حساب کتاب رکھا جا رہا ہے اور شنید ہے کہ ہر شخص کو ویکسینیشن کا کورس مکمل کرنے کے بعد نادرا ایک سرٹیفیکیٹ جاری کرے گا جس میں تصدیق کی جائے گی کہ اس کو کورونا وائرس کی ویکسین لگا دی گئی ہے تاکہ اگر وہ کسی کام کے سلسلے میں بیرون ملک جانا چاہے تو اسے وہاں جانے میں کوئی دشواری پیش نہ آئے سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اگر پرائیویٹ ہسپتالوں کو بھی چین یا کسی اور ملک سے درآمد شدہ ویکسین عوام کو لگانے کی اجازت دے دی گئی تو کیا حکومت نے کوئی ایسا میکنزم مرتب کیا ہے کہ اس کا ریکارڈ بھی نادرا میں مرتب کیا جائےگا لگ یہ رہا ہے کہ ملک کی اکثریت اس مفت ویکسین سے ہی استفادہ کرےگی کہ جو حکومت اسے مہیا کر رہی ہے کیونکہ شنید یہ ہے کہ پرائیویٹ طور پر جو ویکسین درآمد کی جائے گی اس کو دو مرتبہ لگوانے پر جو خرچہ آئے گا وہ تقریبا نو ہزار روپے فی کس ہو گا جو اس ملک کے ایک عام آدمی کی جیب برداشت نہیں کر سکتی کورونا وائرس اور ملک کی سیاست وہ دو اہم موضوعات ہیں کہ جو اس ملک کے سیاسی اور سماجی حلقوں میں آج کل زیر اکثر زیر بحث رہتے ہیں اس ملک کی سیاست ہمیشہ سے بڑی تیزی کے ساتھ اپنا رنگ بدلتی رہتی ہے اور ہمارے سیاستدان وقت کے ساتھ ہوا کا رخ دیکھ کر اپنا پینترہ بدلتے رہتے ہیں کیا کبھی کسی نے یہ سوچا بھی تھا کہ جماعت اسلامی اور پیپلز پارٹی یک جان دو قالب ہو سکتی ہیں کیا 1970 کی دہائی کے اواخر میں یہ دونوں پارٹیاں ایک دوسرے کے خلاف سرگرم عمل نہیں تھیں جماعت اسلامی سے نزدیکی کا مطلب یہ لیا جائے گا کہ شاید پی پی پی اور جے یو آئی میں دوری ہو رہی ہے نیرنگی سیاست اسے ہی تو کہتے ہیں کسی زمانے میں اور یہ کوئی دور کی بات نہیں جب جے یو آئی اور جماعت اسلامی ایم ایم اے کے بینر تلے اکھٹا کھڑے ہوتے تھے جماعت اسلامی اب تک سولو فلائٹ پر تھی پر لگتا یہ ہے کہ اب اس کی قیادت نے بھی محسوس کر لیا ہے کہ اگر اس نے اس ملک کی منفرد قسم کی سیاست میں آ گے آنا ہے تو اسے کسی نہ کسی کے کاندھے کی ضرورت پڑے گی یہ بھی ممکن ہے کہ پی پی پی سر دست جماعت اسلامی کے ساتھ یکجا ہو کر اپنا کوئی موجودہ مسئلہ حل کرنا چاہتی ہو ، یہ بھی عین ممکن ہے کہ آئندہ الیکشن کے موقعہ پر پی پی پی اور جماعت اسلامی آپس میں انتخابی اتحاد کر لیں۔