کورونا کے ساتھ جینا سیکھیں 

سردست تو یوسف رضا گیلانی کا کیس کھٹائی میں پڑ گیا ہے کیونکہ اسلام آباد ہائی کورٹ نے اس کیس میں یہ کہہ کر کے مداخلت کرنے سے انکار کر دیا ہے کہ آئین اسے ایسا کرنے اجازت نہیں دیتا اب ظاہر ہے کہ گیلانی صاحب کے وکیل سپریم کورٹ کا دروازہ کھٹکھٹائیں گے اور بات دور تک جائے گی‘یہ وقت ہی بتائے گا کہ اونٹ کس کروٹ بیٹھتا ہے ویسے اسلام آباد ہائی کورٹ کے جج صاحب کی یہ دلیل بڑی وزنی ہے کہ اگر گیلانی صاحب کے ووٹ زیادہ ہیں تو پی پی پی کو صادق سنجرانی کے خلاف عدم اعتماد کی تحریک لانے سے کس نے روکا ہے‘ ادھر مولانا فضل الرحمان صاحب نے زرداری صاحب اور میاں نواز شریف صاحب کو ٹیلی فون کے ذریعے رابطہ کرکے بجا طور پر مشورہ دیا ہے کہ وہ بچگانہ سیاست بند کرائیں کیوں کہ اس سے پی ڈی ایم کو نقصان پہنچ رہا ہے‘جذباتیت سے نہ تو سیاسی پارٹیاں چلا کرتی ہیں اور نہ ہی کوئی حکومت‘بلاول اور مریم نواز کی بعض باتوں سے پی ڈی ایم کو ناقابل تلافی نقصان پہنچا ہے۔ان دو جواں سال سیاسی رہنماؤں کو کہ جو ابھی تک سیاست کے میدان میں طفل مکتب ہیں ایسے اتالیق میسر نہیں ہیں کہ جو انہیں یہ سمجھائیں کہ تلوار کے زخم تو بھر جاتے ہیں پر غلط الفاظ کے استعمال سے جو گھاؤ لگتے ہیں وہ کبھی بھی نہیں بھرتے‘مولانا فضل الرحمان صاحب تن من دھن کی بازی لگائیں گے کہ پی پی پی اور نواز لیگ میں مزید رخنہ نہ پڑے اور وہ دوبارہ سے یک جان دو قالب ہو جائیں یہ ایک مشکل کام ہے گو نا ممکن نہیں‘اگر یہ اتحاد قائم نہیں رہتا تو مستقبل میں مولانا صاحب کی سیاست کو اس سے بہت بڑا دھچکا لگ سکتا ہے اور دل ہی دل میں میں نواز لیگ اور پی پی پی بھی اچھی طرح سے جانتی ہیں کہ تن تنہا پاکستان تحریک انصاف کا اگلے الیکشن میں مقابلہ کرنا ان دونوں کے لئے کافی مشکل ہو گا اس لئے بھی وہ اس اتحاد کو برقرار رکھنے کی آخری دم تک کوشش کریں گے کورونا وائرس سے اس ملک کے تعلیمی نظام کو بھی شدید نقصان پہنچا ہے گوکہ کئی تعلیمی ادارے آن لائن کلاسز لے رہے ہیں پر ماہرین تعلیم کے نزدیک آن لائن کلاسز لینا کلاس رومز کے اندر ریگولر کلاسز لینے کا کوئی اچھا متبادل نظام نہیں ہے حکومت وقت مکمل لاک ڈاؤن کرنے میں اگر زیادہ سختی کا مظاہرہ نہیں کر رہی تو اس کی توچلو وجہ سمجھ میں آتی ہے کہ وہ روزمرہ کاروبار زندگی کی بندش سے عوام خصوصا ًدیہاڑی دار طبقے کو بھوک اور بے روزگاری میں مبتلا کرکے مارنا نہیں چاہتی پر کم از کم وہ لوگوں کو ماسک پہننے پر مجبور کرنے کے لئے تو سختی کا مظاہرہ کر سکتی ہے اور وہ اس طرح کہ پولیس کو بازار میں جو بھی شخص بغیر ماسک پہنے نظر آئے اسے موقع پر ہی بھاری جرمانہ کیا جائے اس قسم کی سختی کا مظاہرہ فرانس کی حکومت نے کیا ہے اور وہاں اب یہ صورت حال ہے کہ کوئی شخص بھی بھلے وہ بوڑھا ہو کہ جوان اگر وہ ماسک کے بغیر گھر سے باہر نکلتا ہے تو پولیس اسے فوراً پکڑ لیتی ہے اس لئے آج کل فرانسیسی گھر سے باہر بغیر ماسک پہنے نکلنے کا تصور ہی نہیں کر سکتے‘ یہ حربہ فرانس میں کافی کارگر ثابت ہوا ہے جب تک کہ اس قسم کی کوئی کاروائی یا قدم اس ملک میں نہیں اٹھایا جائے گا لوگ ماسک کے بغیر بازاروں میں نکلتے رہیں گے‘ماہرین کا اندازہ ہے کہ کورونا وائرس جلدی سے جانے والا نہیں اور وطن عزیز میں اس کا وجود 2025 ء تک رہے گاہمیں اب اس کے ساتھ ساتھ جینا سیکھنا پڑے گا اور وہ تب ہی ممکن ہے اگر ہم ان ایس او پیز پر سختی سے عملدرآمد کریں کہ جو ہمیں اس جان لیوا وباء سے بچا سکتے ہیں۔