پی پی پی اور نواز لیگ کی داستان بیک وقت محبت اور نفرت پر مبنی جذبات کی ایک لمبی داستان ہے یہ کوئی مفروضہ نہیں بلکہ ایک حقیقت ہے جسے ایک سے زیادہ مثالیں دے کر ثابت کیا جا سکتا ہے اس کی تازہ ترین مثال جمعہ کو سینٹ کی جانب سے جاری ہونے والا وہ نوٹیفیکیشن ہے جس کے تحت پی پی پی کے یوسف رضا گیلانی کو سینٹ میں اپوزیشن کا لیڈر نامزد کر دیا گیا ہے زرداری صاحب کی طرف سے لگائی گئی اس ماسٹرسٹروک نے ایک طرف اگر نواز لیگ کو حیران و پریشان و ششدر کر دیا ہے تو دوسری جانب مولانا فضل الرحمان کی ان کوششوں پر بھی کافی حد تک پانی پھیر دیا ہے جو وہ پی ڈی ایم کو اکٹھا رکھنے کیلئے دن رات کر رہے ہیں کیا جمعہ کے دن یوسف رضا گیلانی کی نامزدگی کے بارے میں جاری ہونے والا یہ نوٹیفیکیشن پی ڈی ایم کے خاتمے کا باعث بن سکتا ہے گو کہ بادی النظر میں پی ڈی ایم کے اتحاد میں دراڑیں نظر آ نا شروع ہو گئی ہیں جس طرح پی پی پی کو نواز لیگ سے گلے شکوے ہیں بالکل اسی طرح نواز لیگ کو بھی پی پی پی سے کئی امور پر پرخاش ہے اب تک تو سیاسی مصلحت کے طور پر ان دونوں پارٹیوں کے لیڈروں نے اپنی زبانوں پر تالے لگا رکھے تھے پر اب لگتا ہے یہ تالے کھل چکے ہیں اگر تو انہوں نے یونہی ایک دوسرے کے خلاف بیان بازی جاری رکھی تو ان دونوں کے درمیان پہلے سے موجود کدورتیں دوبارہ اپنا سر اٹھا لیں گی مریم نواز کے اس بیان پر پی پی پی والوں نے کافی برا منایا ہے کہ جس میں انہوں نے نہایت ہی متکبرانہ انداز میں کہا تھا کہ اگر پی پی پی والے استعفے نہ دیں تو نواز لیگ کی صحت پر کوئی اثر نہیں پڑتا اسی طرح احسن اقبال صاحب کے اس بیان پر بھی پی پی پی والے بڑے سیخ پاہوئے ہیں جس میں انہوں نے یہ کہا ہے کہ جن لوگوں نے یوسف رضا گیلانی صاحب کو بطور اپوزیشن لیڈر کامیاب کرایا ہے ان کو اس بے وفائی کی بھاری قیمت ادا کرنی ہو گی اس اتحاد کے اندر کئی ایسی شخصیات موجود ہیں کہ جو اس اتحاد کے وسیع تر سیاسی مقاصد کے حصول کی خاطر اسے ٹوٹنے سے بچانے کی کوشش میں مصروف ہیں وہ محسوس کرتے ہیں کہ انہیں آئندہ عام انتخابات میں ایک دوسرے کے سہارے کی ضرورت ہوگی کیوں کہ کئی انتخابی حلقوں میں وہ تن تنہا حکومتی پارٹی کو ہرانے کی پوزیشن میں نہیںہو سکیں گے البتہ آپس میں اتحاد کی صورت میں وہ ان حلقوں میں کامیابی سے ہمکنار ہوسکتے ہیں ابھی گیلانی صاحب کے مندرجہ بالا نوٹیفیکیشن پر دستخط کی سیاہی بھی خشک نہیںہوئی تھی کہ پی پی پی اور نواز لیگ کے رہنماو¿ں نے ایک دوسرے کے خلاف دشنام طرازی شروع کر دی حالانکہ جمعہ سے پہلے وہ ایک دوسرے پر تعریف کے ڈونگرے برساتے تھے مولانا صاحب نے زرداری صاحب اور نواز شریف صاحب دونوں کو بڑا صائب مشورہ دیا ہے کہ وہ اپنی پارٹی لیڈروں کو بچگانہ بیانات دینے سے منع کریں ان کا اشارہ واضح طور پر مریم نواز اور بلاول کی طرف تھا۔ جماعت اسلامی جو کل تک ملک میں پھیلی ہوئی موجودہ سیاسی کشمکش میں غیر جانبدار ہونے کا دعوی کر رہی تھی اس نے بھی انجام کار اپنا وزن پی پی پی کے پلڑے میں ڈال دیا ہے اے این پی پر بھی زرداری صاحب کا جادو چل گیا ہے آئندہ عام انتخابات اب کچھ زیادہ دور نہیں دور اندیش سیاسی پارٹیوں نے ابھی سے نئی صف بندیاں شروع کر دی ہیں ملک کے موجودہ سیاسی تناظر میں جو سیاسی اتحاد وجود میں آ رہے ہیں کیا عجب کہ کل کلاں وہی جنرل الیکشن میں بھی ایک دوسرے کے مد مقابل ہوں ۔