داغ دہلوی نے کہا تھا
”نہیں کھیل اے داغ یاروں سے کہہ دو
کہ آتی ہے اردو زبان آتے آتے
زبان کوئی بھی ہو اگر وہ مروجہ قواعد کے مطابق لکھی جائے اور اس کی ٹانگ نہ توڑی جائے تو تحریر کی چاشنی دو بالاہو جاتی ہے کسی زمانے میں انگریزی زبان کے اخبار پاکستان ٹائمز کے ایڈیٹوریل فیض احمد فیض صاحب اور مظہر علی خان صاحب لکھا کرتے تھے اور یہ وہ زمانہ تھا کہ جب گورنمنٹ کالج لاہور کے شعبہ انگریزی کے اساتذہ اپنے شاگردوں سے کہا کرتے تھے کہ درست انگریزی لکھنے کےلئے انہیں پاکستان ٹائمز کے اداریوں سے استفادہ کرنا چاہئے کچھ اسی قسم کی کیفیت ریڈیو پاکستان میں بھی ہوا کرتی تھی اور وہاں پروگرام کے پروڈیوسرز نیوز کاسٹرز اور براڈکاسٹرز کے صحیح تلفظ پر کافی زور دیا کرتے تھے اور سچی بات یہ ہے کہ ہماری جنریشن کے کئی لوگوں نے عمر قریشی اور جمشید مارکر جیسے کرکٹ کمنٹیٹرز کی انگریزی زبان میں کرکٹ کمنٹری کو سن سن کر اپنا تلفظ درست کیا ہے ۔ہم یہ دعویٰ نہیں کرتے کہ ہم اردو زبان پر دسترس رکھتے ہیں پر اپنے اساتذہ سے ہم نے جو کچھ سیکھا ہے اس کے مطابق آج ہم اس کالم میں آپ کی معلومات کےلئے ان الفاظ کا ذکر کریں گے کہ جو غلط العام ہیں ہیں مثلا سہولت کی جمع سہولتوں یا سہولتیں ہونا چاہیے نہ کہ سہولیات۔ اسی طرح ادا ئیگی کا لفظ غلط العام ہے اس کی جگہ اداءکا لفظ زیادہ فصیح ہے اساتذہ کے خیال کے مطابق ناراضگی کی جگہ ناراضی لکھنا زیادہ مناسب ہے ناوقت کا لفظ مرکب روزمرہ کے خلاف ہے اس کی جگہ بے وقت کا استعمال مناسب ہوگا عرصہ دراز کے بجائے مدت دراز زیادہ فصیح ہے‘ تابعدار کے لغوی معنی ہیں تابع رکھنے والا اس سیاق میں اگر کوئی ماتحت حاکم افسر کو عریضہ تحریر کرے اور آخر میں اپنے نام سے پہلے تابعدار لکھے تو یہ خلاف تہذیب ہوگا اس کا متبادل لفظ خدمت گزار ہونا چاہئے اسی طرح بوقت ضرورت میں بہ اضافی ہے قرض حسنہ کی ترکیب غلط العام ہے صحیح ترکیب قرض حسن ہے اساتذہ کے مطابق بنفس نفیس کی ترکیب کسی دوسرے فرد کےلئے استعمال ہوتی ہے اپنی ذات کےلئے احتراماً کچھ کہنا غلط ہو گا۔ لالچ کا لفظ بالاتفاق مذکر ہے لیکن غلط العام کی مد میں اسے مونث استعمال کیا جا رہا ہے مثلا لالچ تمہیں نقصان پہنچائے گی یہ غلط ہے اس کی صحیح صورت یہ ہے کہ لالچ تمہیں نقصان پہنچائے گا جل کا مطلب ہے پانی اور تھل کے معنی ہیں خشک زمین ۔ جل تھل ہوگیا بے معنی اور غلط ہے صحیح جملہ ہے جل تھل ایک ہو گیا آس پڑوس کا لفظ غلط العام ہے اس کی جگہ پاس پڑوس استعمال کرنا چاہئے‘ نصیر ترابی ماہر لسانیات سمجھے جاتے ہیں وہ یہ لکھتے ہیں کہ حسن ظن کے معنی ہیں خوش گمانی اور اس کے مد مقابل سوءظن کا مطلب ہے بدگمانی آجکل عموما یہ دونوں مرکب محض خوش گمانی کے یکساں معنوں میں استعمال ہو رہے ہیں جو ایک فاش غلطی ہے۔ اسی طرح سمجھ نہیں آتی کسی بات کے سمجھ نہ آنے کےلئے یہ ایک غلط فقرہ ہے سمجھ میں نہیں آتا کہنا زیادہ صحیح اور فصیح ہے‘لفظ بجائے کو عموما مونث لکھا جاتا ہے کیونکہ یہ لفظ مذکر ہے لہذا کی بجائے سے گریز کرنا چاہیے اور اس کی جگہ کے بجائے لکھنا زیادہ مہذب اور شائستہ ہے مشکور کا استعمال اب غلط عام ہو چکا ہے جس پر احسان کیا گیا ہو وہ شکر گزار ہوتا ہے مشکور نہیں ہوتا جس نے احسان کیا ہے وہ شکریہ کے ساتھ حصول کا مستحق ہے اور وہی مشکور ہوگا ۔ آجکل بیشتر مکتبہ فکر لکھا جا رہا ہے یہ غلط ہے دبستان فکر کےلئے ”مکتب فکر “درست ترکیب ہوگی ۔منانا کسی کی ناراضگی دور کرنے یا پھر جشن منانے کےلئے استعمال ہوتا ہے برا منانا کے بجائے برا ماننا صحیح اور فصیح ہے مہربانی یا کرم سے پہلے برائے کا استعمال فاش غلطی ہے اس کی جگہ براہ ہونا چاہیے ’اہل اردو نے صاحبہ کو صاحب کی تانیث بنا لیا ہے یہ لفظ عموماً خواتین کے نام یا عہدوں کے ساتھ لاحقے کے طور پر استعمال ہوتا ہے مثلا پرنسپل صاحبہ شبلی نعمانی نے اپنے مکتوبات بنام عطیہ میں عطیہ صاحب لکھا ہے ویسے بھی بیگم صاحب فصیح معلوم ہوتا ہے محترمہ تو جائز ہے لیکن صاحب سے صاحبہ خاصا گراں گزرتا ہے۔ ایصال کا لفظ اپنے بطن میں پہنچانے کے معنی بھی رکھتا ہے ایصال کیا گیا اور ثواب پہنچایا گیا یہ ایصال اور ثواب دونوں کا بہ ا عتبار فصاحت درست استعمال ہوگا آج کےلئے بس اتنا ہی کافی ہے یا ر زندہ صحبت باقی ۔