افغان جنگ، ماضی کے دریچوں سے۔۔۔۔

افغانستان میں امریکہ کو قبضہ جمائے ہوئے دو عشرے ہو چکے ہیں۔ اکیسویں صدی کی تاریخ میں یہ سب سے لمبی جنگ ہے جو ختم ہونے کا نام ہی نہیں لے رہی۔ 9/11 واقعہ پیش آنے پر سی آئی اے نے الزام القاعدہ پر عائد کیا۔ ”وار آن ٹیرر“ یعنی دہشت گردی کے خلاف جنگ کو شروع کرتے ہوئے صدر بش نے اعلان کیا تھا کہ کسی دہشت گرد کو نہیں چھوڑا جائیگا۔ اُسامہ بن لادن اور انکی جہادی تنظیم القاعدہ کو ختم کرنے کیلئے افغانستان پر چڑھ دوڑا۔ اس جنگ کے تین مہینے بعد اسوقت کے وزیر خارجہ ڈونلڈ رمزفیلڈ نے اعلان کیا کہ افغانستان پر امریکی قبضہ مستحکم ہو گیا ہے اورالقاعدہ و طالبان کا خاتمہ ہو گیا ہے۔ بالکل یہی بات سوویت یونین نے کہی تھی جب اس نے 1979ءمیں افغانستان پر فوجی چڑھائی کرکے قبضہ جما لیا تھا۔ افغانوں کی حریت پسندی کی رگ پھڑکی اور روسی قبضہ چھڑانے کیلئے بیرونی مگر روس مخالف ممالک کی مدد درکار ہوئی، کیونکہ آزادی پسند سوویت یونین کا براہ راست مقابلہ کرنے سے قاصر تھے۔ امریکہ نے اسکو سوویت یونین ایمپائر کو نیچا دکھانے اور گرانے کا موقع غنیمت جانا اور افغان مجاہدین کو دل کھول کر فوجی و مالی مدد دی۔ حتیٰ کہ القاعدہ نیٹ ورک اور افغان مجاہدین کو امریکہ لیجاکر ٹریننگ دی۔ دس سال کی مزاحمت کے نتیجے میں سوویت یونین کو شکست ہوئی اور1988ءکو معاہدے کے تحت افغانستان سے فوجی انخلاءشروع کیا جو 1990ءمیں مکمل ہوا۔ 1990ءسے لے کر 1996ءتک افغان سرزمین پر خانہ جنگی رہی۔ چونکہ امریکہ نے اپنے مقصد کو حاصل کرکے مجاہدین کے ذریعے سوویت یونین کو ٹکڑے ٹکڑے کر دیا تھا اسلئے اس خانہ جنگی کو نہ امریکہ نے روکنے کی کوشش کی، نہ کسی اور طاقت ور ملک نے۔ 1996ءمیں ملا عمر اور انکے ساتھی طالبان ملک میں خانہ جنگی کے خاتمے کی غرض سے قندھار سے نکلے اور پھر دیکھتے ہی دیکھتے کابل پر قبضہ کر لیا۔ اسکے بعد ملک کے طول و عرض پر پھیل گئے اور پانچ سال تک ملک کے تقریباً 95 فیصد علاقے پر حکومت کی اور امن بحال کیا۔ ملک سے منشیات، منشیات فروشوں اور بدعنوان و دہشتگرد عناصر کا مکمل خاتمہ کر ڈالا۔امریکی اعلیٰ عہدیداروں نے 9/11 واقعے سے کچھ نو ماہ قبل اسلام آباد میں تعینات افغان سفیر ملا عبدالسلام ضعیف سے ملاقات کی تھی اور افغانستان میں امریکی فوج کی رہائش کیلئے فوجی اڈے مانگے تھے۔ تاکہ امریکہ، چین اور روس پر نظر رکھ سکے۔ جسے طالبان حکومت نے یکسر مسترد کر دیا تھا۔ امریکہ اس نشے میں چور تھا کہ افغانوں نے سوویت یونین کو شکست امریکہ کے زور پر دی تھی۔ امریکہ افغانستان کی تاریخ اور افغانوں کی فطرت کو بھول گیا تھا کہ اس خطے اور لوگوں کو کنٹرول کرنے سے سکندر اعظم جیسا طاقتور شخص اور عظیم فاتح بھی عاجز آگیا تھا اور نتیجتاً اس علاقے کو کئی سالوں تک جاری مزاحمت کے بعد چھوڑ گیا تھا۔ اس ملک کی تاریخ جنگوں سے بھری پڑی ہے، جو کسی سے پوشیدہ نہیں ہے۔اکیسویں صدی کی گریٹ گیم کے تحت امریکی سامراج کو جنوبی ایشیاءمیں کسی طور مستقل سکونت اختیار کرنی ہے، کیونکہ چین کی مسلسل ترقی کو روکنا ہے جبکہ روس کے دوبارہ اٹھنے کے رحجان کو ختم کرنا بھی مقصود ہے اور اس خطے میں اپنا اثر قائم رکھنا چاہتا ہے۔ تبھی تو 9/11 کے بعد جنرل حمید گل مرحوم نے پاکستان کے متعلق کہا تھا کہ ”افغانستان ٹھکانہ ہے، پاکستان نشانہ ہے“۔وقت نے ثابت کر دیا کہ افغان نہ ہارنے والی قوم ہے۔ افغان طالبان کی جہد مسلسل اور لاتعداد قربانیوں نے امریکیوں کو ناکوں چنے چبوا ئے ہیں اور کافی جانی و مالی نقصان کے بعد ان کے ہوش ٹھکانے آئے ہیں۔امریکہ افغان جنگ سے اب عاجز آچکا ہے۔ دو دہائیوں سے جاری جنگ میں امریکہ ایک ہزار ارب(ایک ٹریلین) ڈالرز سے زائد جھونک چکا ہے۔ سالانہ سو ارب ڈالرز امریکی فوج کا خرچہ افغانستان میں آتا ہے لیکن اسکے باوجود طالبان کا زور کم ہوا ہے نہ انکے حملوں میں کمی آئی ہے۔ بلکہ امریکی فوج تمام تر جدید ترین ٹیکنالوجی اور فوجی سازو سامان کے باوجود طالبان کے آئے دن کے حملوں کے سامنے اپنے آپکو بے بس محسوس کرتی ہے اور اشرف غنی کی حکومت صرف کابل اور گردونواح تک محدود ہے۔ تبھی تو سابقہ امریکی کمانڈر برائے افغانستان جنرل میک کرسٹل نے بیان دیا تھا کہ ہم جنگ ہار چکے ہیں، صرف اسکو واشنگٹن سے تسلیم کروانے کی دیر ہے جسکا مناسب وقت پر اعلان کیا جائیگا۔ اسی بیان کو سابق صدر براک اوباما نے غیر سنجیدہ قرار دیتے ہوئے جنرل میک کرسٹل کو اپنے عہدے سے سبکدوش کردیا تھا۔ سابق صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے فروری 2020ءمیں طالبان سے دوہا، قطر میں امن معاہدہ کیا جس کے تحت امریکی فوجی اپریل 2021ءمیں افغانستان سے مکمل طور پر نکل جائیںگے۔اب جب کہ صدر جو بائیڈن نئے امریکی صدر منتخب ہو کر آئے ہیں تو وہ اس انخلاءمیں حیلے بہانوں سے کام لے رہے ہیں اور کہا ہے کہ امریکہ مئی سے فوجی انخلا شروع کرد یگا۔ طالبان کا بھی ردعمل کے طور پر بیان سامنے آیا ہے کہ ہم اسوقت تک جنگ لڑیں گے جب تک ایک امریکی فوجی ہماری سرزمین پر موجود ہے۔ امریکہ کے گریٹ گیم کے مقاصد چونکہ ابھی تک پورے نہیں ہوئے اور اسکا افغان سرزمین پر رہنا بھی محال ہو گیا ہے اس لئے اب وہ اپنے مقصد کے لئے کسی اور خطے کا انتخاب کرنے جا رہا ہے۔ساتھ سی پیک منصوبہ بھی خطرے میں آ جائے گا کیونکہ سی آئی اے اسے کسی بھی طور روکنے کے درپے ہے۔ جنرل حمید گل نے ایک افغان کمانڈر جو سوویت یونین کے خلاف لڑ رہا تھا سے پوچھا تھا کہ تم لوگ کب تک اس سے لڑو گے تو اس نے جواب دیا تھا کہ جب تک ہماری نسل باقی ہے۔