درہ آدم خیل میں 16 مغویوں کی لاشیں برآمد


 

پشاور: ضلع کوہاٹ کے علاقے درہ آدم خیل میں نامعلوم شرپسندوں کی جانب سے 2011 میں اغوا کیے گئے 16 کان کنوں کی لاشوں کی باقیات ایک اجتماعی قبر سے برآمد کی گئی ہیں۔

شانگلہ کول مائنر ورکرز ایوسی ایشن کے عہدیداران کے مطابق یہ اجتماعی قبر خیبر ایجنسی کے علاقے طور سپاور پستاوانہ میں دریافت ہوئی جس کے بعد تمام وسائل بروئے کار لاتے ہوئے ریسکیو آپریشن شروع کردیا گیا۔

شانگلہ کول مائنر ورکرز ایسوسی ایشن کے ترجمان سرفراز خان کا کہنا تھا کہ ابتدائی طور پر ریسکیو ورکرز کو جائے وقوع سے 6 لاشوں کی باقیات ملیں تاہم بعدازاں مزید کھدائی کے بعد مجموعی طور پراس قبر سے 16 لاشوں کی باقیات برآمد کر لی گئیں۔

خیبر پختونخوا کے ضلع شانگلہ سے تعلق رکھنے والے 32 کان کنوں کو نامعلوم شرپسندوں نے 2011 میں درہ آدم خیل کی ایک کان سے اغوا کر لیا تھا۔

ان 32 میں سے 16 کان کن کسی طرح جان بچا کر بھاگنے میں کامیاب ہو گئے تھے جبکہ بقیہ کو یرغمال بنا کر رکھا گیا تھا جن کی لاشوں کی باقیات جمعرات کو برآمد ہوئیں۔

 

 

سرفراز خان نے کہا کہ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ ان افراد کو اغوا کرنے کے فوری بعد ہی قتل کردیا گیا تھا اور ان میں سے کچھ کی شناخت ان کے کپڑوں سے ہوئی۔

اجتماعی قبر سے برآمد ان باقیات کے ڈی این اے محفوظ کرنے کے بعد بعد ان کی تدفین کردی جائے گی۔

واضح رہے کہ ضلع شانگلہ سے تعلق رکھنے والے افراد کی بڑی تعداد ملک کے مختلف حصوں میں کان کنی کے کاموں کے لیے جاتی ہے۔

ابھی تک یہ معلوم نہیں ہو سکا کہ اس واقعے میں کون شرپسند عناصر ملوث ہیں کیونکہ 2011 میں یہ علاقہ مختلف دہشت گرد گروپوں کا گڑھ تھا۔

 

یاد رہے کہ یہ پہلا موقع نہیں کہ پاکستان میں اجتماعی قبر سے اس طرح بڑی تعداد میں لاشیں برآمد ہوئی ہوں بلکہ 2014 میں بھی ایک قبر سے 16 لاشیں برآمد ہوئی تھیں جس میں سے اکثر ناقابل شناخت تھیں۔

 

کوہاٹ ہی میں ’جواکی‘ کے پہاڑی علاقے میں مارچ 2012 میں اجتماعی قبروں سے 50 سے زائد لاشیں ملی تھیں۔