سانحہ قصہ خوانی ایک درد ناک اور ہولناک دن جب قصہ خوانی بازار کو خون سے نہلا دیا گیا تھا

23 اپریل 1930: سانحہ قصہ خوانی ایک درد ناک اور ہولناک دن جب قصہ خوانی بازار کو خون سے نہلا دیا گیا تھا

پشاور:سانحہ قصہ خوانی کے کل 91 سال مکمل ہوں گئے، اس دن کی مناسبت سے باچا خان کے نواسے اورعوامی نیشنل پارٹی کے مرکزی صدر اسفند یار ولی خان نے ایک بیان میں حکومت برطانیہ سے مطالبہ کرتے ہوئے کہا ہے کہ سانحہ کے 91 سال مکمل ہونے پر تاریخ کو درست کرنے کیلئے معافی مانگی جائے، برطانوی حکومت کو پارلیمنٹ میں ان شہداء سے معافی مانگنی چاہیے اور اپنی غلطی تسلیم کرنی چاہیے، تاریخ کو غلط رنگ دے کر غلطیوں اور ظلم کو چھپایا نہیں جاسکتا، حقیقت سامنے آہی جاتی ہے۔
اسفندیارولی خان نے کہا کہ پوری دنیا کو یہ بات منوانی ہوگی کہ انگریزوں نے اس وقت طاقت کا غلط استعمال کرکے سینکڑوں نہتے کارکنان کو شہید کیا، قصہ خوانی کی گلیاں، سڑکیں اور بالخصوص یادگار شہداء آج بھی ہر شہید کی قربانی کی گواہی دے رہے ہیں، پشاور،قصہ خوانی سمیت دیگر واقعات میں شہید ہونے والوں کی قربانیوں ہی کی بدولت ہمیں آزادی نصیب ہوئی۔

اسفندیارولی خان کا کہنا تھا کہ جس طرح قصہ خوانی کے شہداء نے اپنی مٹی کی آزادی، دفاع کیلئے قربانیاں دیں، ہم بھی اسی راہ پر چلیں گے، خدائی خدمتگار تحریک سے لے کر عوامی نیشنل پارٹی تک ہمارے کارکنان و رہنمائوں کو نشانہ بنایا گیا لیکن ہم پیچھے نہیں ہٹے، اس دھرتی کی حفاظت، قومی حقوق کے حصول، آئینی و پارلیمانی جنگ میں اے این پی صف اول میں کھڑی رہے گی،اے این پی شہداء کی امین جماعت ہونے کے ناطے تمام شہداء کو خراج عقیدت پیش کرتی ہے۔

واضح رہے 23 اپریل 1930 کو پشاور کے مشہور قصہ خوانی بازار میں انگریز سامراج نے جنگ آزادی کے متوالوں پر گولیاں چلائی تھیں۔ برطانوی سامراج کے خلاف تحریک آزادی کے رہنما خان عبدالغفار خان عرف باچا خان کو انگریز حکومت کے خلاف تقریر کرنے کے الزام میں گرفتار کر لیا گیا تھا۔ ان کی گرفتاری کے خلاف کارکنوں نے صوبہ سرحد (خیبر پختون خوا) میں احتجاج کیا۔ ساتھ ہی تحریک خلافت کے 12ارکان جنکو وار کونسل ممبران بھی کہا جاتاہے برٹش راج کے خلاف اواز بغاوت بلند کی اور برٹش راج کے قہحبہ خانون شراب خانوں کے کھٹوں کو لائسنس جاری کرنے پر کمیٹی ممبران نے برٹش راج کے خلاف 23اپریل کو پرامن احتجاج کا اعلان کیا تو 10ارکان 21اور22کی شب گرفتار ہوئے جبکہ 2ارکان خواجہ غلام ربانی سیٹھی اور اللہ بخش برقی کو گرفتار کیا گیا تو ہزارون کی تعداد میں اہل پشاور اپنے رہنماوں کے حق میں جمع ہوئے اور انقلاب زندہ باد کے نعرے لگانے شروع کردیے جس پر 23 اپریل 1930 کو پشاور کے مشہور قصہ خوانی بازار میں انگریز فوج نے نہتہ پشاوریوں اور باچا خان کے پرامن کارکنوں پر اندھا دھند فائرنگ کرواکر ان پر گاڑیاں دوڑا دیں یوں دیکھتےدیکھتے قصہ خوانی خون سے رنگ دیا گیا اور سینکڑوں افراد شھید کر دئےگئے۔