غیر یقینی سیاسی حالات۔۔۔۔

لگ یہ رہا ہے کہ پی ڈی ایم میں شامل جماعتوں اور اس سیاسی اتحاد کے علاوو دوسری سیاسی جماعتوں نے بھی یہ ٹھان رکھی ہے کہ وہ وزیراعظم صاحب کو اس وقت تک سکھ اور چین کا سانس نہیں لینے دیں گی کہ جب تک وہ عام انتخابات کی تاریخ کا اعلان نہیں کرتے دوسری طرف حکومتی پارٹی بھی اس موڈ میں دکھائی نہیں دیتی کہ وہ بھی اپنے رویوں میں کسی لچک کا مظاہرہ کرے۔پانی اور آ گ کا ملاپ بھی کبھی ہوا ہے؟ وفاقی دارالحکومت کے سیاسی مبصرین کے مطابق حزب اختلاف کے اہم رہنما کے اس بیان سے کہ وہ قومی اسمبلی کے سپیکر سے معافی نہیں مانگیں گے اور یہ کہ بات جوتا مارنے سے آگے بھی بات جا سکتی سے قومی اسمبلی کے اندر سیاسی فضا مزید خراب ہو سکتی ہے ان کے خیال میں اپوزیشن لیڈر شہباز شریف کے اسمبلی میں آ نے سے شاید سیاسی فضا میں بہتری آ سکے‘ پتہ نہیں کہ ہمارے قارئین کو وہ واقعہ یاد بھی ہے یا نہیں جب ذوالفقار علی بھٹو کے وزارت عظمی کے دور میں ایک مرتبہ اس وقت کے قومی اسمبلی کے سپیکر کے حکم پر قومی اسمبلی کے ایک اہم رکن کو سارجنٹ ایٹ آ رمز کے ذریعے قومی اسمبلی کے اجلاس سے باہر نکال دیا گیا تھا کیونکہ ان کے رویے سے قومی اسمبلی کی کاروائی میں رخنہ پڑ رہا تھا۔ اس واقعے کے بعد ایک عرصے سے کسی بھی قومی اسمبلی کے سپیکر نے کسی رکن اسمبلی کے خلاف اتنا سخت قدم کبھی نہیں اٹھایا حالانکہ کئی کئی مرتبہ ایسا ہوا کہ قومی اسمبلی کے اراکین نہ صرف یہ کہ آپس میں مشت و گریبان ہوئے انہوں نے ایک دوسرے کے خلاف گالم گلوچ بھی کی اور ایک دوسرے کے کپڑے بھی پھاڑے خدا کرے کہ تاریخ اپنے آ پ کو نہ دہرائے ورنہ قومی اسمبلی میں حکومت اور اپوزیشن کے درمیان موجود تلخی میں کئی گنا اضافہ ہو سکتا ہے۔یہ بڑی بدقسمتی کی بات ہے کہ اس ملک میں ایک عرصہ دراز سے پارلیمانی نظام چل رہا ہے پر ابھی تک اراکین پارلیمنٹ نے کوئی قابل رشک پارلیمانی روایات قائم نہیں کیں اگر آپ اس ملک کی 72 یا 73 سال کی سیاسی تاریخ پر ایک تنقیدی نظر ڈالیں تو آپ اس نتیجے پر پہنچیں گے کہ بے شک اس مدت کے نصف حصے میں اس پرغیر جمہوری حکومتیں بھی رہیں پر یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ تقریبا آدھے سے کچھ زیادہ عرصے اس ملک میں پارلیمانی نظام حکومت بھی قائم رہا بھلے وہ نواز شریف کی حکومت تھی یا پی پی پی کی حکومت تھی یا کسی اور پارٹی کی۔ مقام افسوس ہے کہ ایک لمبے عرصے تک ہمارے اراکین پارلیمنٹ اچھی پارلیمانی روایات کو قائم کرنے میں ناکام رہے۔ اگر ایسا نہ ہوتا تو آج وہ پارلیمنٹ کے فلور پر نہایت ہی ذمہ دارانہ رویہ اختیار کرتے نہ آپس میں مشت و گریباں ہوتے نہ ایک دوسرے کے کپڑے پھاڑ تے نہ قومی اسمبلی کے سپیکر کے سامنے جا کر کاغذات پھاڑتے اور نہ اس کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر انہیں دھمکیاں دیتے۔ مولانا فضل الرحمان صاحب ایک آ دھ دن میں پی ڈی ایم کے سربراہوں کا اجلاس منعقد کرنے والے ہیں جس میں وہ عیدالفطر کے بعد لانگ مارچ کے بارے میں حتمی فیصلہ کریں گے۔سر دست پی پی پی اور نواز لیگ اپنی اپنی ہٹ دھرمی پر قائم ہیں پر اس کے باوجود مولانا فضل الرحمان صاحب ابھی تک پر امید ہیں کہ جلد یا بدیر وہ ان کے درمیان پرخاش کو ختم کرانے میں کامیاب ہو جائیں گے۔