کوئی دن جاتا ہے کہ افغانستان سے امریکی افواج کا انخلاء شروع ہو سکتا ہے کئی لوگوں کا یہ خیال ہے کہ چونکہ افغانستان طولانی جنگ کے پیش نظر کھنڈر بن چکا ہے اور طالبان بشمول دوسرے جنگی گروپس جنگ سے تائب ہو چکے ہیں اب کی دفعہ شاید ماضی کے تلخ تجربات کو مدنظر رکھتے ہوئے اپنے رویوں میں تبدیلی لے آئیں ہمیں یہ بات بھی ملحوظ خاطر رکھنی چاہئے کہ موجودہ افغان حکومت نے تعلیم معیشت مواصلات اور دیگر شعبوں میں مختلف ممالک اور عالمی اداروں سے معاہدے بھی کر رکھے ہیں بھارت چاہ بہار بندرگاہ سے کابل تک سڑک بنا رہا ہے اور افغانستان کے اندر دو ہزار ترقیاتی منصوبوں پر کام کررہا ہے تودوسری طرف چین اور روس بھی اپنے اپنے طور پر وہاں موجود ہے افغانستان میں اب اصل کھیل سرمایے کا ہوگا اس بات میں کافی وزن ہے کہ افغانستان کی سرحدوں پر موجود تین بڑے عالمی کھلاڑی چونکہ آپس میں اقتصادی معاہدوں میں جڑے ہوئے ہیں وہ کبھی بھی نہیں چاہیں گے کہ افغانستان ایک مرتبہ پھر جنگ کا کھاڑہ بن جائے چین اور روس20 ارب ڈالرز کے تیل و گیس کے معاہدے کر چکے ہیں بھارت اور چین کے درمیان باہمی تجارت ایک سو ارب ڈالرز تک پہنچ چکی ہے یہ بھی درست ہے کہ افغان حکومت کی یہ خواہش ہے کہ امریکی فوج کے انخلاء سے پہلے کوئی ایسا معاہدہ ہو جائے کہ طالبان کا فوجی قبضہ ممکن نہ رہے طالبان کے اندر بھی اب یہ سوچ جنم لینے لگی ہے کہ کوئی ایسا معاہدہ ہو جائے کہ جس کے تحت اب ان کو جنگجو گروپ کے بجائے سیاسی متبادل کے طور پر تسلیم کرلیا جائے یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ اب20برس پہلے والے حالات نہیں رہے‘ گوریلا جنگ کرنا ایک الگ بات ہے اور ملک چلانا ایک علیحدہ معاملہ ہے لہٰذا اب طالبان کے اندر یہ سوچ بھی پیدا ہو رہی ہے کہ اگر وہ حکومت میں آتے ہیں تو انکو یہ ثابت کرنا پڑے گا کہ وہ نہ صرف انتظامی معاملات پر دسترس رکھتے ہیں ان کو معاشی معاملات کا بھی ادراک حاصل ہے افغانستان میں جس کسی کی بھی حکومت ہو اسے ماضی کے تلخ تجربات سے سبق لینا چاہئے اور کسی بھی بیرونی طاقت کے ایماء پر ایسی پالیسی سے اجتناب کرنا چاہئے کہ جس میں اسکی سرزمین کو پاکستان کے اندر دہشت گردی اور تخریب کاری کیلئے استعمال کیا جائے کیا یہ حقیقت نہیں کہ ماضی میں اکثر وبیشتر وہاں کے حکمرانوں نے ہمیشہ پاکستان جیسے برادر اسلامی ملک کے بجائے بھارت کیلئے اپنے دل میں نرم گوشہ رکھا‘یہ ایک لمبی داستان ہے، افغانستان اور پاکستان اسی صورت میں ہی ایک دوسرے کے ساتھ بہترین تعلقات رکھ سکتے ہیں کہ وہ ماضی کو بھلا کر مستقبل کی طرف دیکھیں۔ اس کام کیلئے صرف خلوص نیت درکار ہوتی ہے نیز وزارت داخلہ بھی پارلیمنٹ کو غیر مبہم الفاظ میں بتلائے کہ افغانستان کیساتھ امیگریشن کے معاملات کس حد تک حل ہو ئے؟ کیا افغانستان کے باشندے ماضی کی طرح اب بھی آزادی کیساتھ بارڈر کراس کرکے پاکستان آجارہے ہیں یا انکو پاسپورٹ اور ویزا کاپابند بنادیاگیا ہے؟ یہ پابندی اس لئے ضروری ہے کہ اسکے بغیر صرف باڑ لگانے سے یہ مسئلہ حل نہیں ہوگا حکومت ایسا مکینزم ضرور بنائے کہ اسے پتہ چلتا رہے کہ جو افغانستان سے پاکستان ویزے پر آیا وہ کہاں گیا کیا وہ ویزے کی معیاد پوری ہونے کے بعد واپس وطن چلا گیا یا کہیں غائب ہوگیا ہے دنیا کے تمام ممالک میں باہر سے آنے والوں کے لئے مخصوص قواعد و ضوابط موجود ہیں جن پر سختی کے ساتھ عملدرآمد ہوتا ہے یہی وجہ ہے کہ وہاں پر نہ تو باہر آنے والے بدامنی پھیلا سکتے ہیں اور نہ ہی وہ مقامی لوگوں کے لئے مسائل پیدا کر سکتے ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ پاکستان اور افغانستان دونوں ممالک ایک دوسرے پر انحصار کرتے ہیں اگر ایک طرف افغانستان کو پاکستان کی ضرورت ہے کہ جس کے ذریعے اسے بندرگاہوں پر رسائی ملی ہے تو دوسری طرف پاکستان کو وسطی ایشیا ء تک رسائی کے لئے افغانستان کی ضرورت ہے اور وہاں امن قائم ہو تو تب ہی پاکستانی اشیاء بلاروک ٹوک وسطی ایشیاء پر جا سکتی ہے اور وہاں سے پاکستان تک اشیاء کی ترسیل ہو سکتی ہے اب وقت آگیا ہے کہ دونوں ممالک باہمی تعلقات کو اس موڑ پر لے جائیں کہ جس سے پورے خطے میں خوشحالی آئے۔