قابل افسوس باتیں۔۔۔۔

یہ دیکھ کر دکھ بھی ہوتا ہے اور افسوس بھی کہ ہم لوگ اپنے بھلے اور برے کی پہچان بھی بھول گئے ہیں اور یہ خیال ہی نہیں کرتے کہ جو حکومت کورونا وباء کے حوالے سے بار بار ہدایات دیتی ہے اور ایس او پیز پرعمل کرنے کو کہتی ہے تو اس میں ہمارا ہی بھلاہے۔ ماسک پہننا ہے یا فاصلہ رکھنا یہ ہماری اپنی صحت کیلئے ضروری ہے۔ مگر اس کیلئے بھی پولیس اور فوج کی مدد لینی پڑرہی ہے اور ماسک پہننے جیسی چھوٹی مگر اہم بات ہماری سمجھ میں نہیں آرہی۔دوسری اہم بات یہ ہے کہ ہمارے سول ادارے کیوں اتنے بے بس ہوجاتے ہیں کہ ہر مشکل میں ان کو فوج کی مدد لینی پڑجاتی ہے اگریہی بات ہے تو پھر بھاری بھرکم سول انتظامیہ اور پولیس کے اداروں کی ضرورت ہی کیا ہے عام تاثر یہ ہے کہ ایک عرصہ دراز سے پولیس اور انتظامیہ میں جو کچھ بھرتیاں ایسی بھی کی جارہی ہیں جو میرٹ اور مروجہ بھرتی کے قوانین کے برعکس سیاسی سفارشوں پر کی جا رہی ہے اب ظاہر ہے جو آیا ہی بد عنوانی سے ہوتو وہ آگے کیا کریگا۔ سب سے پہلے تو وہ عوام سے اس رقم کی ریکوری کرتا ہے کہ جو اس نے نوکری لینے کیلئے دی ہوتیہے۔ اس لئے ضروری ہے کہ جہاں بھرتی کے عمل کو بہت صاف شفاف رکھا جائے اور کسی بھی طرح کی سیاسی مداخلت سے گریز کیا جائے اسی طرح بھرتی کے بعد ان افراد کو فرائض کی بجاآوری میں بھی آزادی ہو کسی بھی طرف سے سفارش اور دباؤ نہ ہو۔ان کو یہ خوف نہ ہو کہ وہ اگر فلاں سیاسی شخصیت کے ناجائز کام کو نہیں کریں گے تو ان کو انتقامی طور پر وہ فورا ٹرانسفر کروا دیں گے۔ ہمارے ایک دوسرے ریاستی ادارے پارلیمنٹ کی حالت بھی کوئی زیادہ قابل رشک نہیں ہے نہ قومی اسمبلی کوئی ایک اچھی روایت قائم کر رہی ہے اورنہ صوبائی اسمبلیاں۔دونوں جگہوں پر ہنگامے اور شور شرابے کا ماحول ہوتا ہے۔اگلے روز خیبر پختونخوا کی اسمبلی میں سپیکر نے ایک رکن اسمبلی کو اسمبلی کے فلور سے اس بات پر باہر نکال دیا کہ ہنگامی آرائی کاارتکاب ہورہا تھا، یہ واقعہ اس واقعے چند روز بعد رونما ہوا کہ جب قومی اسمبلی میں ایک سینئر رکن اسمبلی کی سپیکر کے ساتھ تلخ کلامی ہوئی تھی۔ اس قسم کے رویوں سے نجانے ہماری نئی نسل ان کے بارے میں کیا تاثر قائم کرتی ہوگی۔اب بہت ضروری ہوگیا ہے کہ ایوانوں کے ماحول کو سدھارا جائے اور اس سلسلے میں حکومت اور حزب اختلاف دونوں پر ذمہ داری عائد ہوتی ہے۔ اراکین اسمبلی کاکام تو قانون سازی پر توجہ دینا ہے اور اس سلسلے میں ایک دوسرے سے تعاون کرنا ہے تاہم اس وقت جوماحول ہے وہ کچھ اس طرح ہے کہ اس میں قانون سازی کا عمل رک سا گیا ہے۔ایسے حالات میں کہ اسمبلیوں نے اپنی آدھی سے زیادہ مدت گزار دی ہے اور جو عرصہ رہتا ہے وہ بہت قیمتی ہے۔اس لئے جس قدر اہم امور ہیں اور جس کیلئے قانون سازی کی ضرورت ہے تو حکومت اور حزب اختلاف دونوں کو مل بیٹھ کر ا س سلسلے میں لائحہ عمل تشکیل دینا چاہئے۔