اہم ملکی اور غیر ملکی معاملات۔۔۔۔

مولانا فضل الرحمان صاحب کے مطابق پی ڈی ایم عید الفطر کے بعد دوبارہ میدان میں اترے گی ان کا یہ بھی فرمان ہے کہ کوئی ایک آدھ ادھر ادھر ہو جائے تو پرواہ نہیں کرنی چاہئے ویسے مولانا صاحب سے بہتر کوئی نہیں جانتا کہ پی پی پی کے کے بغیر آئندہ عام انتخابات میں شاید پی ڈی ایم اتنی کامیابی حاصل نہ کر سکے کہ جو اس کے اشتراک سے حاصل کی جا سکتی ہے سردست پی پی پی اور نواز لیگ کے درمیان کئی معاملات میں اختلاف رائے موجود ہے ان کے درمیان ابھی برف پوری طور پر نہیں پگھلی۔ اس ملک کی سیاست میں کوئی حرف آخر نہیں ہوتا مستقبل قریب یا بعید میں ہو سکتا ہے یہ دوبارہ کم از کم عام انتخابات کی حد تک آپس میں شیر و شکر ہو جائیں ملک کے اندر ہوش ربا مہنگائی کی لہر کو دیکھ کر ہر ذی شعور شخص اپنے آپ سے اور حکومت سے یہ سوال کر رہا ہے کہ آخر حکومتی رٹ کہاں گئی اس معاملے حکومت نے کیوں چپ سادھ لی ہے، بلیک مارکیٹر اور ذخیرہ اندوز اسی طرح سرگرم ہیں۔ گزشتہ چارماہ کے دوران پولیس نے کہاں کہاں ذخیر اندوزوں کے خلاف کاروائی کی اور چینی بشمول دیگر ضروری اشیاء خوردنی کے کتنے ذخیروں کو بے نقاب کر کے گوداموں میں ذخیرہ کی گئی اشیاء کو بحق سرکار ضبط کرکے نیلام کیا زیادہ دور کی بات نہیں۔ نیا نیا پاکستان بنا تھا بزرگ فرماتے ہیں چوک یادگار پشاور شہر میں جلسہ عام ہو رہا تھا کہ لوگوں کے مجمع سے اچانک شور اٹھا کہ صوبے میں چینی کی قلت ہے اور اور ذخیرہ اندوزوں نے چینی کو گوداموں میں چھپا رکھا ہے اور پولیس خاموش تماشائی بنی بیٹھی ہے اس پر وزیراعلی صاحب نے کہا عوام کو جہاں کہیں بھی ذخیرہ اندوزوں کے گودام نظر آئیں۔ وہ ان کو لوٹ لیں اور یہ کہ پولیس ان کے خلاف کوئی پرچہ نہیں کاٹے گی دوسرے دن صوبے بھر میں کئی چینی کے وہ گودام لوٹ لئے گئے کہ جن میں ذخیرہ اندوزوں نے چینی ذخیرہ کی ہوئی تھی اس خوف کے ڈر سے سے کہ ان کے گودام بھی کہیں لوٹے نہ جائیں باقی ماندہ ذخیرہ اندوزوں نے فورا اپنی چینی مارکیٹ میں بھجوا دی اس کے بعد کہتے ہیں کہ ایک لمبے عرصے تک صوبے میں کسی کو ہمت نہ ہوئی کہ وہ چینی ذخیرہ کر سکے اب وزیراعلی صاحب کا مندرجہ بالا حکم غیر روایتی تھا َ پر اس قسم کے غیر روایتی سخت قسم کے احکامات کبھی کبھی کرنے ضروری ہوتے ہیں کیونکہ بعض مسائل کاحل اب بغیر ڈنڈے کے بغیرناممکن ہے قوم کو گرانفروشوں کے رحم و کرم پر چھوڑا نہیں جا سکتا ملک میں صرف قانون کی ہی حکمرانی نہیں ہونی چاہیے اس کے ساتھ ساتھ اخلاقیات کا بھی ہونا ضروری ہے ان دونوں کو یکجا طور پر لاگو کرنا ہوگا قانون اخلاقیات کے زریں اصولوں کا نام ہے کہ جو تحریر میں لائے جاتے ہیں جب کہ اخلاقیات انسان کے ضمیر کی اندر کی دنیا کی آواز ہے قوانین سماجی استحکام کو یقینی بناتے ہیں جب کہ اخلاقیات انسان کی ذہنی نشوونما کرتی ہے قوانینِ اور اخلاقیات کو علیحدہ علیحدہ نہیں کیا جا سکتا ان دونوں کو ساتھ لے کر چلنا ہوگا۔ چین اور جاپان اس وقت ہمارے سامنے دو زندہ مثالیں ہیں کہ جہاں اخلاقیات اور اور قوانین کی حکمرانی کا بول بالا ہے دونوں کا تعلق علیٰحدہ علیٰحدہ معاشی نظام کے ساتھ ہے جاپان میں سرمایہ دارانہ نظام حکومت قائم ہے جبکہ چین میں کمیونسٹ نظام حکومت رائج ہے جاپان کا یہ حال ہے کہ اگر راستے میں سڑک پر آپ کا کرنسی سے بھرا ہوا بٹوہ گر جائے یا آپ سے کوئی اور قیمتی چیز گم ہو جائے تو آپ کو فکر کی ضرورت نہیں کیونکہ جو جاپانی بھی اسے سڑک سے اٹھائے گا وہ اسے اپنے گھر لے جانے کے بجائے سٹیٹ بینک میں جمع کرا دے گا جو انجام کار آپ تک کسی نہ کسی طریقے سے پہنچ جائے گی چین کے اندر بھی کم و بیش یہی حال ہے اور اس کے رہنماؤں نے بھی اعلی اخلاقیات کا عملی مظاہرہ کرکے قوم کو یہ سبق پڑھا دیا ہے کہ دیانتداری اور قانون کی حکمرانی کے بغیر وہ کبھی ترقی نہیں کر سکیں گے اور اگر آج چین معاشی طور پر دنیا میں ایک منفرد مقام حاصل کر چکا ہے تو اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ وہاں اخلاقیات اور قانون دونوں کی حکمرانی ہے۔ا س کا مطلب یہ ہے کہ حکومت کے ساتھ ساتھ عوام کی بھی ذمہ داری ہے کہ وہ سماجی برائیوں کے خلاف یکجاں ہو کر کوشش کریں اور اپنے درمیاں ایسے لوگوں کی نشاندہی کریں جن کی وجہ سے نہ صرف قانون کی خلاف ورزی  اور عوام کو تکلیف ہورہی ہے۔