حکومتی امور کی انجام دہی۔۔۔۔

1976 کی بات ہے ٹانک میں اس وقت کے وزیر قبائلی امور ایک جرگے سے خطاب کر رہے تھے جس کہ دوران بعض قبائلی مشران نے اپنے تحصیلدار کے خلاف کچھ شکایتیں کیں وزیر موصوف نے اس وقت تو کچھ نہ کہا پر بعد میں اس تحصیلدار کو اکیلے میں انہوں نے بلا کر اسے خوب جھاڑ پلائی۔ہم نے جب اس بارے میں ان سے سوال کیا کہ وہ جرگے کے دوران کیوں خاموش رہے تو انہوں نے کہا کہ ہمیں یہ نہیں بھولنا چاہئے کہ ہم نے حکومت سرکاری اہلکاروں کے ذریعے ہی چلانی ہے اگرہم انہیں پبلک کے سامنے بے عزت اور بے توقیر کریں گے تو پھر پبلک ان کو گھاس نہیں ڈالے گی اس دانشمندانہ طرز عمل کی یادہمیں اس وقت آ ئی جب ہم نے حال ہی میں ایک سیاسی شخصیت کو اسسٹنٹ کمشنر سیالکوٹ کو بر سر عام جارحانہ الفاظ کا نشانہ بناتے دیکھا اس واقعہ کے چندہی گھنٹوں بعد اسی نوعیت کا ایک اور واقعہ ایک اور سب ڈویژن میں بھی پیش آیا۔ ان حقائق کے پیش نظر بات سمجھ میں آتی ہے کہ ماضی میں گڈ گورننس کیوں ممکن تھی اور آج کیوں عنقا ہے ہم بیوروکریسی کا دفاع نہیں کر رہے ہم اس حقیقت کو واضح کرنا چاہتے ہیں کہ بیوروکریسی سے کام نکلوانا ایک سائنس ہے ایک فن ہے ایک آرٹ ہے اگر ہر سیاسی پارٹی اقتدار میں آنے سے پہلے مختلف انتظامی امور میں اپنی پارٹی کے ورکرز کی تربیت کر لے تو اقتدار میں آنے کی صورت میں اس کو بیوروکریسی کے سہارے کی شاید اتنی ضرورت نہ ہو پر چونکہ کسی سیاسی پارٹی نے اس امر کی طرف ریفارمرز کے ذریعے توجہ ہی نہیں دی اس لئے اقتدار میں آنے کے بعد ہر سیاسی پارٹی کے کرتا دھرتوں کو لامحالہ بیورو کریسی پر تکیہ کرنا پڑتا ہے کہ وہ اس کی پالیسیوں کو عملی شکل دے لہٰذا اگر وہ اپنے جارحانہ الفاظ یا رویوں سے بر سر عام سرکاری اہلکاروں کی بے عزتی کے مرتکب ہوں گے تو پھر وہ ان کے تعاون سے محروم ہو سکتے ہیں اس باریک نکتے کو سمجھنے کی ازحد ضرورت ہے۔ آج کل بیوروکریسی اور سیاسی لوگوں کے درمیان محاذ آرائی کی جو کیفیت بن رہی ہے یہ اس ملک کے نظم و نسق کے لیے سم قاتل ہے اس سے کسی اور کو نقصان یا فائدہ ہو نہ ہو البتہ عام آدمی کا سخت نقصان ہوگا عین ممکن ہے کہ اپنے خلاف سیاسی قیادت کا جارحانہ رو یہ دیکھ کر سرکاری اہلکار اپنے کام میں دلچسپی لینا ہی چھوڑ دیں۔ سرکاری اہلکار اور ان کے سیاسی باس کے درمیان جو رولز آف بزنس موجود ہیں ان میں مناسب ترمیمات کی ضرورت ہے ان میں اس بات کا لکھنا نہایت ضروری ہے کہ سرکاری ملازم ریاست اور ریاست کے قوانین کے تابع ہوں گے اور وہ صرف اور صرف ملکی قوانین اور ریاست کو جواب دہ ہوں گے۔ ان پر یہ بالکل لازم نہیں کہ وہ کسی حکومت وقت کا ایسا حکم مانیں جو ملکی قوانین کے خلاف ہو رولز آف بزنس میں یہ غیر مبہم الفاظ میں لکھا جائے کہ اگر کسی محکمے کا سربراہ یا کسی وزارت کا سیکرٹری یہ محسوس کرے کہ ان کا متعلقہ وزیر ان سے یہ توقع کر رہا ہے کہ وہ ان کے کسی غیرقانونی حکم کی تعمیل کرے تو اس پر پھر یہ لازم ہوگا کہ وہ اپنا اعتراض تحریری شکل میں متعلقہ وزیر کو ارسال کرے اور اس کی ایک کاپی اپنے چیف سیکرٹری کو بھی ارسال کرے۔اس میں بھی کوئی شک نہیں کہ بیوروکریسی پر چیک رکھنا اور ان سے کام لینا بھی ضروری ہے اگر کہیں وہ خلاف قاعدہ کام کرتے ہیں تو پھر سیاسی باس کی ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ کاروائی کرے تاہم اس کاروائی اور اقدام کا اس انداز میں انجام پانا ضروری ہے کہ اس سے حکومتی مشینر ی کی فعالیت میں خلل نہ پڑے اور معمولات حکومت تیزی کے ساتھ انجام پاتے رہیں۔