موجودہ دور کو اگر پبلسٹی اور تشہیر کادور کہا جائے تو غلط نہیں ہوگا۔اسکی وجہ شاید یہ بھی ہے کہ زندگی بہت تیز ہوگئی ہے اور اس کے ساتھ ساتھ زندگی کی لوازمات بھی بد ل گئی ہیں۔ایسے میں تمام کمپنیوں کی کوشش ہوتی ہے کہ وہ زیادہ سے زیادہ لوگوں تک تشہیر اور پبلسٹی کے ذریعے رسائی حاصل کریں اور اس کے بدلے میں ان کو مالی فائدہ ہو۔شہرت و مقبولیت کو ہی اس دور میں کامیابی کا ذریعہ سمجھا جاتا ہے۔ اس پیمانے پر نہ صرف کمرشل پبلسٹی اور تشہیر پر توجہ دی جاتی ہے بلکہ افراد بھی اپنی شخصیت کو ابھارنے اور زیادہ سے زیادہ لوگوں کو متاثر کرنے کیلئے اس کا سہارا لیتے ہیں۔ مختلف سوشل میڈیا سائٹس پر جس کے فالورز اور پسند کرنے والوں کی تعداد جس قدر زیادہ ہوتی ہے اس قدر وہ شخصیت مقبول سمجھی جاتی ہے اور کئی کمپنیاں اور ادارے ایسے افراد کی خدمات بھی حاصل کرتی ہیں کہ ان کے ذریعے زیادہ لوگوں تک رسائی ممکن ہوجاتی ہے آج کل کی کارپوریٹ ورلڈ میں تو پبلسٹی اس کا ایک جز لاینفک بن چکی ہے ہر سال کروڑوں بلکہ اربوں روپے پبلسٹی کی مد میں مختص کئے جاتے ہیں کسی سیاسی شخصیت یا کسی مصنوعات کی پبلک میں امیج بلڈنگ کرنی ہپ تو اس پر پانی کی طرح پیسہ بہایا جاتاہے کالے کو سفید اور گورے کو کالا قرار دینے کا ہنر تو کوئی ان لوگوں سے سیکھے کہ جنہیں کارپوریٹ ورلڈ میں میڈیا منیجر کہا جاتا ہے پر یہ بات صرف کمرشل مصنوعات تک ہی محدود نہیں سیاسی پارٹیوں اور سیاسی لیڈروں کو بھی دیکھ لیجئے وہ بھی اس ہنر سے بھر پور فائدہ اٹھا رہے ہیں۔بالواسطہ پبلسٹی کو بلاواسطہ پبلسٹی کے مقابلے میں موثر قرار دیا گیاہے۔ ماو زے تنگ جب چین کے حکمران تھے تو وہ نہایت کم آمیز تھے اور قصداً خبروں میں کم آیا کرتے تھے جب وہ کبیر سنی کے عالم میں تھے تو امریکا کا میڈیا اکثر ان کے بارے میں اس قسم کی بے بنیاد خبریں اڑا دیا کرتا تھا کہ وہ بستر مرگ پر ہیں۔اس قسم کی خبروں کا توڑ پھر چین اس طرح پیش کرتا کہ وہ ان کی تردید شائع کرنے کی بجائے ماو زے تنگ کی تازہ ترین تصویر شائع کر دیتا کہ جس میں ان کو کسی دریا میں تیرتے یا نہاتے دکھایا گیا ہوتا اس سے امریکا کی ان کی صحت کے بارے میں پھیلائی ہوئی تمام افواہیں دم توڑ دیتیں۔پبلسٹی کا کام بڑی اہمیت کا حامل ہے ہر اس قسم کی مصنوعات کی پبلسٹی میں بڑی احتیاط کی ضرورت ہے کہ جن کا تعلق براہ راست انسانی صحت اور زندگی کے ساتھ ہو ادویات کی ہی بات کر لیتے ہیں کسی بی دوائی کی پبلسٹی کرنے سے پہلے ایڈواٹائزنگ ایجنسی کا فرض بنتا ہے کہ وہ اس بات کی سو فیصد تسلی کر لے کہ جس دوائی کی وہ پبلسٹی کر رہی ہے وہ حفظان صحت کے اصولوں پر پوری بھی اترتی ہے کہ نہیں اور اس کا واحد طریقہ یہ ہے کہ اس کے پاس ڈرگ ریگولیٹری اتھارٹی کا اس دوائی کے بارے میں مستند سرٹیفیکیٹ ہونا چاہئے۔اسی قسم کی احتیاط کاسمیٹکس کی مختلف مصنوعات کی بھی پبلسٹی کرنے سے پہلے برتنی بہت ضروری ہوتی ہے۔