فکر انگیز امور۔۔۔۔

یہ دیکھ کر دکھ ہوتا ہے کہ یہ قوم آ خر کیوں خودکشی کرنے پر تلی ہوئی ہے یہ کیوں کورونا وائرس کے خلاف حکومت کے جاری کردہ ایس او پیز کو ہوا میں اڑا کر اپنے پاؤں پر کلہاڑی چلا رہی ہے عمران خان کا یہ بیان فکر انگیز ہے کہ اگر اس ضمن میں ہم نے احتیاط نہ برتی تو بھارت والے حالات کا وطن عزیز کو بھی سامنا کرنا پڑ سکتا ہے مقام افسوس ہے کہ حکومت لاکھ کوششوں کے باوجود ایس او پیز کی سختی کے ساتھ اطلاق کرنے میں خاطر خواہ کامیاب نظر نہیں آئی ہے ا ور اس کی وجہ یہ بھی ہو سکتی ہے کہ وہ یکسوئی کا مظاہرہ نہیں کر رہی اور مختلف تجارتی اداروں کی یونیز کے دباؤ میں آ کر ایس اوپیز کے اطلاق کے بارے میں وقتا فوقتا اپنے فیصلوں میں ترمیم کر رہی ہے۔واشنگٹن یونیورسٹی کے ایک تجزیے کے مطابق جنوبی ایشیا میں کورونا وائرس آئندہ دو تین ماہ میں بڑی تیزی سے سے پھیلے گا ماہ رواں میں عالمی سطح پر ایک دن میں وائرس کے شکار افراد کی تعداد کہیں ڈیڑھ کروڑ تک نہ جا پہنچے۔ ان حالات کے پیش نظر ہمیں ایس او پیز پر عمل درآمد کرنے کی ضرورت ہے اسی طرح عالمی اداروں ہلال احمر اور عالمی ادارہ صحت نے خبردار کیا ہے کہ اس وبا کو روکنے کیلئے عالمی سطح پر ایکشن کی ضرورت ہے عالمی ادارہ صحت کے مطابق ایسے اشارے ملے ہیں کہ بھارت میں کورونا کی نئی لہر پڑوسی ممالک میں بھی پھیل رہی ہے دنیا بھر میں کورونا کے حوالے سے سے غیر محتاط رویوں کے باعث اس کی تیسری لہر اتنی ہلاکت خیز ہوگی گی اس کا اندازہ کسی کو نہ پہلے تھا اور نہ اب ہے۔شہباز شریف اگلے روز اسلام آباد تشریف لائے اور ان کو کئی افراد کے ساتھ ملاقات کرنے کا تو وقت ملا ہاں اگر ان کے پاس اگر ملاقات کرنے کا وقت نہ تھا تو مولانا فضل الرحمان صاحب سے ملنے کیلئے نہ تھا واقفان حال کے مطابق مولانا صاحب نے اس سرد مہری کو محسوس تو کیا ہے پر ایک دور اندیش مدبر کی طرح سر دست وہ اپنے اس کرب کوہونٹوں پر نہیں لا رہے۔وزیر اعظم صاحب کے حالیہ دورہ سعودی عرب کے بارے میں قسم قسم کی چیمہ گوئیاں سننے میں آ رہی ہیں کہا یہ جا رہا ہے کہ اس دورے کا مقصد سعودی عرب سے مزید قرضوں کا حصول ہے‘حقیقت یہ ہے کہ جب بھی وطن عزیز کو مالی مشکلات کا سامنا کرنا پڑا تو سعودی عرب نے ساتھ دیا۔ یہ کوئی چھوٹی بات تھوڑی ہے۔اس میں کوئی شک نہیں کہ سعودی عرب اور پاکستان نے ہر مشکل میں ایک دوسرے کا ساتھ دیا ہے اور وزیر اعظم پاکستان کے حالیہ دورہ اس حوالے سے بہت اہم ہے جہاں کئی طرح کے معاہدوں پر دستخط ہوئے۔ سعودی عرب اگر سی پیک جیسے منصوبے میں عملی شراکت دار بن جائے جس سے پورے خطے میں ترقی کی راہیں کھلیں گی۔ اب وقت آگیا ہے کہ جنگ اور اسلحوں پر پیسہ خرچ کرنے کی بجائے غربت اور بے روزگاری کے خاتمے میں اسے استعمال میں لایا جائے۔ پاکستان کو اہم سٹریٹیجک محل وقوع کے باعث بہت اہمیت حاصل ہے۔ اسی طرح ایران کے ساتھ بھی ہمارے دوطرفہ تعلقات کافی اچھے رہے ہیں۔ سعودی عرب اور ایران دونوں ممالک ہمارے لیے برابر اہمیت کے حامل ہیں اور یہاں یہ امر باعث اطمینان ہے دونوں ممالک کے درمیان تعلقات بہتر ہونے لگے ہیں اور عراق و چین کی ثالثی سے ان کی آپس میں بات چیت جاری ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ اسلامی ممالک کے باہمی اختلافات سے غیر وں نے فائدہ اٹھایا اور کبھی ایک ملک کو ستایا تو کبھی دوسرے کو۔ اس لئے ضروری ہے کہ اسلامی ممالک آپس میں چھوٹے موٹے اختلافات کو ختم کرکے ایسی پالیسی بنائیں کہ جن پرعملدارآمد سے اسلامی ممالک مضبوط معاشی حیثیت کے حامل ہوں اور وہ بھی دنیا کے ترقی یافتہ ممالک کی صف میں شامل ہوں۔