موبائل فون کی اس قوم کے ہر فرد کو کو ایسی لت پڑی ہے کہ جسے دیکھو وہ 24 گھنٹے اپنے موبائل سیٹ کے ساتھ مگن ہے ماضی قریب میں انسان کو عینک کی ضرورت اس وقت پڑتی تھی کہ جب وہ چالیس کے پیٹے میں ہوتا تھا آج کل کم سن بچوں کو نظر کے چشمے لگ رہے ہیں۔ جواں سال بچے اب پارکوں کا رخ نہیں کرتے اور نہ ہی سپورٹس گراؤنڈ میں جاتے ہیں وہ اب 24 گھنٹے اپنے موبائل سیٹ کے ساتھ چمٹے رہتے ہیں جس کی وجہ سے وہ جواں سالی میں ہی قبل از وقت مختلف قسم کے عوارض میں مبتلا ہوتے جا رہے ہیں جن میں بلڈ پریشر ہارٹ پرابلم اور بلڈ شوگر نمایاں ہیں موبائل سیٹ پر ہر قسم کا مواد ملتا ہے۔ یہ روش نہ جانے نئی نسل کو کس طرف لے جائے گی اس کا تصور کرتے ہی ہر ذی شعور انسان خوف سے لرز اٹھتا ہے۔اخلاقی اقدار ماضی کا حصہ بنتی جار ہی ہیں اس ملک کی آج کی نئی نسل جسمانی ورزش کی طرف اتنی توجہ نہیں دے رہی کہ جتنی اسے دینی چاہئے اور اس میں اس ملک کے حکمران بھی کافی حد تک ذمہ دار نظر آتے ہیں اپ کوہم ایک چھوٹی سی مثال دیتے ہیں فرنگیوں کے دور میں بلکہ یوں کہیے پاکستان کے قیام کے بعد بھی اس ملک کے ابتدائی دور میں بھی جب کوئی نیا سکول بنایا جاتا تھا تو اس میں جسمانی ورزش کیلئے مختلف کھیلوں کے گراؤنڈز بھی بنائے جاتے تھے اور پی ٹی یعنی فزیکل فٹنس کا روزانہ ایک پیریڈ ہوتا تھا اور ہر سکول اور کالج کی اپنی اپنی کرکٹ فٹبال ہاکی وغیرہ کی ٹیم ہوتی تھی جب اس ملک میں نجی تعلیمی اداروں کے قیام نے جنم لیا تو تو کسی نے ان تعلیمی ادارے چلانیوالوں سے یہ نہیں پوچھا کہ وہ جس عمارت میں سکول یا کالج کھول رہے ہیں کیا اس میں مختلف گیمز کے انعقاد کیلئے گراؤنڈ بھی موجود ہیں یا نہیں اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ پرائیویٹ سکولوں اور کالجوں میں جسمانی ورزش کا نظریہ ہی ختم ہو گیا پبلک سیکٹر میں بننے والے نئے تعلیمی اداروں میں بھی یہی حال ہے ہمارے تعلیمی اداروں میں ذہنی اور جسمانی نشوونما میں توازن نہیں رکھا جا رہا۔عمران خان کوشش تو کر رہے ہیں کہ اس ملک کو سبز سے سبز تر بنا دیا جائے۔اب ذرا ملک کی جغرافیای سرحدوں کے حالات پر بھی ایک طائرانہ نظر ڈال لیتے ہیں۔ اگلے روز شمالی وزیرستان اور بلوچستان میں دہشتگروں کی تخریبی کاروائیوں سے افواج پاکستان کا ایک کپتان اور چھ اہلکار شہید ہوگئے ان واقعات سے پتہ چلتا ہے کہ دشمن آج بھی پاکستان کی جڑوں میں پانی دے رہا ہے اور وہ وقفے وقفے سے کسی نہ کسی رنگ میں یہاں کے امن کو پامال کر رہے ہیں۔ پاک افغان سرحد پر پر باڑ لگانے سے یقینا بھارت ناخوش ہے اور افغانستان میں موجود اس کے آلہ کاروں کو تکلیف ہے ان کے علاوہ وہ تمام بین الاقوامی قوتیں جو پاکستان کو غیر مستحکم کرنا چاہتی ہیں وہ بھی چاہتی ہیں کہ پاکستان سکھ کا سانس نہ لے پاکستان دشمن عناصر یہ چاہتے ہیں کہ پاک افغان سرحد پر اسی طرح بلا روک ٹھوک آمد و رفت جاری رہے کہ جس طرح ماضی میں ہوا کرتی تھی وہ اس ضمن میں کوئی قدغن نہیں چاہتے وہ بخوبی جانتے ہیں کہ اگر ایک دفعہ پاک افغان بارڈر پر سو فیصد باڑ لگ گئی اور اس پر چھوٹے چھوٹے فوجی قلعے تعمیر ہو گئے اورآمد و رفت کو کسی امیگریشن کے ضابطے کے تحت لا یا گیا تو پھر اس صورت میں ان کیلئے کافی مشکل ہو گا کہ وہ تخریب کاری کیلئے پاکستان میں اپنے دہشت گرد آزادانہ طور بھجوا سکیں یہی وجہ ہے کہ وہ وقفے وقفے سے پاک افغان بارڈر پر باڑ لگانے والے افراد پر فائرنگ کرتے رہتے ہیں بالکل اسی طرح ہے کہ جس طرح آزاد کشمیر میں لائن آف کنٹرول پر بھارت پاکستانی فوجیوں پر فائرنگ کرتا رہتا ہے۔