اچھے کاموں کی تعریف کرنا لازم ہے‘ صدر پاکستان ڈاکٹر علوی نے آئین کے آرٹیکل 89 کے تحت تحفظ والدین آ رڈننس 2021 جاری کر دیا ہے جو قابل ستائش ہے اس کا مقصد بچوں کی جانب سے والدین کو زبردستی گھروں سے نکالنے کے خلاف تحفظ فراہم کرنا ہے اس آرڈننس کے تحت والدین کو گھر سے نکالنا قابل سزا جرم ہوگا مغرب میں تو ایک عرصہ دراز سے اولاد کے ہاتھوں دھتکارے ہوئے والدین کیلئے وہاں کی حکومتوں نے سرکاری طورپر اولڈہومز بنا رکھے ہیں پر اب تو وطن عزیر میں بھی یہ سلسلہ چل نکلا ہے اس ملک میں ایسی نا فرمان اولاد کی شرح میں اضافہ ہو رہا ہے کہ جو یہ بات بھول چکی ہے کہ ایک دن اس نے بھی بوڑھا ہو کر لا چار ہوناہے وہ اپنے والدین کو اپنے اوپر بوجھ سمجھ کر ان سے کنارہ کش ہو رہی ہے البتہ وہ بال بچے والدین کے آ خری دم تک ان کے آ گے پیچھے ہو کر ان کی خدمت کرتے رہتے ہیں کہ جن کی نظر ان کی پراپرٹی پر جمی ہوتی ہے۔ مغرب کا تو یہ حال ہے کہ ایک مرتبہ ہم مانچسٹر کے ایک اولڈ ہوم گئے اور وہاں پر موجود ایک بوڑھے شخص سے پوچھا کہ کیا تمہارا کوئی بیٹا ہے تو اس نے کہا ہاں ہے پر سال میں ایک مرتبہ کرسمس کے موقعہ پر اس کا کارڈ مجھے آتا ہے کہ جس سے مجھے پتہ چلتا رہتا ہے کہ وہ ابھی زندہ ہے۔ انگلستان کے ایک قصبے میں ایک بوڑھا میاں بیوی کا جوڑا رہا کرتا تھا جس نے اپنے بچے کی شادی کرا کر ا سے علیحدہ مکان دلوا دیا تھا ان کا ایک چھوٹا پوتا بھی تھا ایک دن بوڑھی کا انتقال ہوگیا تو اس کے بوڑھے خاوند نے اپنا گھر فروخت کر کے اولڈ ہوم کا رخ کرنا چاہا اس کے بیٹے نے اس سے کہا کہ اولڈ ہوم جانے کی کیا ضرورت ہے وہ اس کے پاس چلا آئے تو اس کے باپ نے اسے کہا کہ دراصل ہم میاں بیوی نے یہ فیصلہ کیا تھا کہ ہم سے جو پہلے اگر مر گیا تو دوسرا اکیلے رہنے کی بجائے اولڈ ہوم میں اپنی زندگی کے باقی ماندہ ایام گزارے گا۔ بیٹے کے ازحد اصرار پر وہ اس کے ساتھ چلا تو گیا پر فوراً اسے اپنی غلطی کا احساس اس وقت ہوا کہ جب اس نے اپنی بہو کو اپنے خاوند سے یہ کہتے سنا کہ تم خوامخواہ اپنے بوڑھے باپ کو گھر لے آئے اب دیکھو ناں ساری ساری رات وہ کھانستا ہے ہماری نیند ڈسٹرب کرتا ہے باتھ روم میں بڑا وقت لگاتا ہے پھر ایک دن اس نے اپنی بہو کو اپنے شوہر سے یہ کہتے سنا کہ تم اپنے باپ کو گھر کی اوپر والی چھت کے برآمدے میں چارپائی لگا دو اور اسے کہو کہ وہ کمرہ خالی کر دے کہ اب ہمارا بیٹا بڑاہو گیا ہے اور اسے علیحدہ کمرہ چاہئے چنانچہ اپنے بیٹے کے کہنے ہر وہ برآمدہ میں شفٹ ہو گیا اور اس کے بیٹے نے اسے سردی سے بچنے کیلئے ایک کمبل بھی دے دیا اب اس کا چھوٹا پوتا یہ سب دیکھ رہا ہوتا۔ ان حالات سے تنگ آ کر ایک دن وہ بوڑھا مجبوراً اپنا بستر اس کمبل میں لپیٹ کر اولڈ ہوم جانے کی تیاری کر رہا ہوتا ہے کہ اس کاپوتا دوڑ کر اپنے باپ سے کہتا ہے کہ بابا جان بابا جان دادا جان نے اپنا سامان باندھ لیا ہے اور وہ اس کمبل کو بھی ساتھ لے جا رہے ہیں کہ جو آپ نے ان کو دیا تھا جس پر اس کا باپ اسے کہتا ہے خیر ہے وہ کمبل کو بے شک اپنے ساتھ لے جائے اس پر وہ چھوٹا بچہ اپنے باپ سے کہتا ہے کہ نہیں بابا جان قینچی لاؤکہ میں اسے کاٹ کر آدھا کر لوں کیونکہ کل کلاں میں آپ کو جب اپنے گھر سے نکالوں گا تو وہ آدھا کمبل میں آپ کو دوں گا اپ ذرا سوچئے کہ کتنی بڑی بات اس چھوٹے سے بچے نے اپنے باپ سے کہہ کر اس کے ضمیر کو جھنجھوڑ دیا۔ یہ بات بالکل درست ہے جیسا کرو گے ویسا بھرو گے۔