بیوروکریسی کا اعتماد بحال کرنے کی ضرورت ۔۔۔۔

عید سے پہلے وزیراعظم صاحب کا اپنی کابینہ کے ارکان کو یہ مشورہ کافی دانشمندانہ تھا کہ وہ عیدالفطر کے دوران سیاسی سرگرمیاں ترک کر دیں اور اپنے اپنے گھروں میں رہ کر اپنے آپ کو کورونا سے محفوظ رکھیں یہ ہماری بڑی بد قسمتی ہے کہ ہم من حیث القوم بڑے غیر ذمہ دار ثابت ہوئے ہیں۔ہماری جنرل پبلک نے کورونا وائرس کی ایس او پیز کو اپنی جوتی کی نوک پر مارا ہے۔ حکومت چیخ چیخ کر گلا پھاڑ پھاڑ کر لوگوں کی منت اور ترلے کر رہی ہے اور اس مقصد کیلئے اس نے ابلاغ عامہ کے ذریعہ کروڑوں روپے خرچ کر کے ان کو اس جان لیوا وباء کی تبا کاریوں سے آ گاہ کیا ہے پر مجال ہے کہ ان کے کانوں پر جوں بھی رینگی۔ان ابتدائی کلمات کے بعد آ تے ہیں چند اہم قومی اور بین الاقوامی امور کی جانب۔انگریزی زبان کا ایک محاورہ ہے کہ ہر بڑی دولت کے پیچھے ایک جرم ہوتا ہے بعض لوگ چشم زدن میں کھرب پتی یوں ہی نہیں بن جاتے کبھی کبھی خیال آ تا ہے کہ کتنے بدقسمت ہیں وہ لوگ کہ جنہوں نے کالے دھندوں سے کھربوں روپے تو کما لئے پر اپنا سکون اور آرام گنوا دیا کوئی جیل میں ہے تو کوئی ضمانت پر اور کوئی غریب الوطن ان میں بعض ایسے عوارض میں مبتلا ہیں کہ جن کے علاج پر لاکھوں روپے اُڑ جاتے ہیں۔جب ہم نے ایک خاتون ڈاکٹر کی طورخم بارڈر پر افغان مریضوں سے رشوت لینے کی مبینہ ویڈیو کو وائرل ہوتے دیکھا تو یکدم ہم یہ سوچنے پر مجبور ہو گئے کہ اگر بیماری کی آڑ میں افغانستان سے آنے والوں کو اسی طرح پشاور داخل ہونے کی اجازت ملتی رہی تو اس بات کی کیا گارنٹی ہے کہ کوئی دہشت گرد اپنے آپ کو بیمار قرار دے کر علاج کرانے کے بہانے پاکستان میں داخل نہیں ہو گا اس میں کوئی شک نہیں کہ روزانہ درجنوں افراد علاج کرانے کے لئے پاکستان میں طورخم کے رستے داخل ہوتے ہیں۔ جہاں تک ہماری معلومات کا تعلق ہے ہم نے کوئی ایسا موثر میکینزم نہیں وضع کیا ہوا کہ جس سے ہم یہ تسلی کر سکیں کہ جو علاج کرانے کیلئے پاکستان آیا ہے وہ واپس افغانستان چلا بھی گیا ہے کہ نہیں۔مذکورہ بالا وڈیو سے تو یہ ثابت ہوتا ہے کہ طورخم بارڈر پر تعینات لیڈی ڈاکٹر رشوت کے چند روپے لے کر کسی کو پشاور جانے کی اجازت دے رہی ہے اسے احساس ہی نہیں کہ ایسا کر کے وہ کتنا بڑا جرم کر رہی ہے کیونکہ بیماری کی آڑ میں کوئی بھی دہشت گرد اس طریقے سے وطن عزیز میں گھس سکتا ہے۔ اب یہ میڈیا کا کام ہے کہ وہ اس کیس کا پیچھا کرے اور یہ دیکھے کہ اس لیڈی ڈاکٹر کے خلاف حکومت کیا کاروائی کرتی ہے اگر وہ واقعی قصوروار ہے تو پاکستان میڈیکل ایسوسی ایشن کی طرف سے سب سے پہلے یہ مطالبہ آنا چاہئے کہ اس کی ڈگری کینسل کی جائے۔چند روز قبل سیالکوٹ میں صوبائی مشیر نے اسسٹنٹ کمشنر سیالکوٹ کی جو برسرعام بے عزتی کی تھی اس پر سول سروس آف پاکستان نے کافی برا منایا تھا کئی سول آفیسرز کا یہ خیال تھا کہ اگر وہ صاحبہ اسسٹنٹ کمشنر کی کسی بات پر خفا تھیں تو انہیں تخلیہ میں ملکر اپنی خفگی کا اظہار کرنا چاہئے تھا اس واقعے کے فورا ً بعد اسی قسم کا ایک دوسرا واقعہ بھی رونما ہوا۔