کرنے کے کام۔۔۔۔۔۔

عید الفطر کی چھٹیوں کے بعد اس ملک کا سیاسی تندور پھر گرم ہونے والا ہے مولانا فضل الرحمن صاحب دھاگے کو اسی جگہ پھر سے اٹھانے والے ہیں کہ جہاں پر انہوں نے رمضان شریف سے پہلے اسے چھوڑا تھا پی ڈی ایم نے ماضی قریب میں حکومت کی چولیں ہلانے کیلئے جو حکمت عملی بنائی تھی وہ تو رنگ لانے میں کامیاب نہیں ہو سکی اب دیکھتے ہیں کہ سیاسی شطرنج میں پی ڈی ایم کونسی چال چلتی ہے ایک بات البتہ بڑی واضح ہے اور وہ یہ ہے کہ جب تک مولانا صاحب پی پی پی اور نواز لیگ کو ایک مرتبہ پھر ایک ہی پلیٹ فارم پر لانے میں کامیاب نہیں ہوتے پی ڈی ایم حکومت وقت کا بال بھی بیکا نہیں کر سکتی پی پی پی اور نواز لیگ کی مثال آ گ اور پانی جیسی ہے اور آگ اور پانی کا ملاپ شاذ ہی ہوتا ہے مولانا صاحب اگلے ہفتے سیاسی طور پر ایک مرتبہ پھر متحرک ہونے والے ہیں 2023 الیکشن کا سال ہے اور جوں جوں وہ نزدیک آ رہا ہے سیاسی جماعتوں کی ترجیحات میں بھی فرق آتا جا رہا ہے اب شاید وہ کسی اور بات سے زیادہ مجوزہ عام انتخابات کیلئے نئی سیاسی صف بندی پر ابھی سے ہی زیادہ توجہ دینا شروع کر دیں چونکہ اس ملک میں اچھی سیاسی روایات کا فقدان ہے لانگ ٹرم پلاننگ کے بجائے ہمارے سیاست دان فوری سیاسی فوائد حاصل کرنے کے چکر میں رہتے ہیں لہٰذا یو ٹرن لینا ان کا عام شیوہ ہے کیا عجب کہ 2023 کے الیکشن میں پی پی پی اور نواز لیگ ایک مرتبہ پھر اپس میں شیرو شکرہو جائیں کچھ عرصے سے قومی میڈیا میں بیوروکریسی اور سیاسی قیادت کے درمیان محاذ آرائی کی سی ایک کیفیت پیدا ہوگئی ہے اور اس ضمن میں مختلف آ راء کا اظہار کیا جا رہا ہے یہ بات تو طے ہے کہ بیوروکریسی ہر حکومت میں ریڑھ کی ہڈی کے مترادف ہوتی ہے یہ بیوروکریسی ہی ہے کہ جو ہر حکومت کے سیاسی منشور کو عملی جامہ پہناتی ہے امن عامہ کو قائم رکھنا بھی اسی کی ذمہ داری ہے۔ یہ بیوروکریسی کے فرائض منصبی میں آتا ہے کہ کوئی بااختیار ایسا کام کرنے جا رہے ہیں کہ جو ملکی قوانین سے متصادم ہے تو وہ زبانی اور تحریری طور پر ان کو ایسا کرنے سے منع کرے پر اس قسم کی جرات کا مظاہرہ سرکاری افسر تب ہی کر سکتے ہیں کہ جب انہیں اپنی نوکری کا تحفظ حاصل ہو اور یہ خطرہ نہ ہو کہ ان کو کسی بھی ایسے کام پر کھڑے کھڑے نوکری سے معطل کر دیا جاے گا اگر وہ ان کے سیاسی باس کے مزاج ہر گراں گزرے گا تجربہ یہ بتاتا ہے کہ ماضی میں بعض حکمرانوں نے یہ محسوس کیا کہ وہ اقتدار میں آکر کوئی ایسا کام نہیں کر سکتے کہ جو ان کا من پسند ہو پر قانون کے خلاف ہو کیونکہ بیوروکریسی ان کے آ ڑے آ رہی ہے تو انہوں نے کمال چالاکی سے سرکاری ملازمتوں کے متعلقہ قوانین میں ایسی تبدیلی کردی کہ بیوروکریسی کے ہاتھ پیر کاٹ دیئے اور اسے سیاسی حکمرانوں کے رحم و کرم پر چھوڑ دیا گیا بیوروکریسی کے خلاف ایک دوسری زیادتی یہ کی گئی کہ اس میں بھرتی کیلئے میرٹ کے اصولوں کو مکمل طور پر پامال کردیا گیا اور سیاسی سفارشوں پر اعلیٰ مناصب پر اکثر اوقات براہ راست بھرتیاں اور تقرر یاں ہونے لگیں‘ اس دن سے اس ملک سے گڈ گورننس کا جنازہ اٹھ گیا ہے اگر تو حکمرانوں نے بیوروکریسی سے کام لینا ہے تو پہلے اس کے اہلکاروں کو نوکری کا تحفظ فراہم کیا جائے اور پھر ان پر واضح کر دیا جائے کہ وہ کوئی ایسا کام نہ کریں کہ جو غیر قانونی ہو نیز ان کی بھرتی اور پوسٹنگ ٹرانسفر کے معاملات میں بھی سفارش کی جگہ صرف اور صرف میرٹ کو عمل دخل ہو سرکاری ملازمین کو قائد اعظم محمد علی جناح کا وہ فرمان پیش نظر رکھنا چاہئے کہ جس میں انہوں نے سرکاری ملازمین کو یہ نصیحت کی تھی کہ وہ حکومت وقت کو اتنے جواب دے نہیں کہ جتنے ریاست کو جواب دہ ہیں کیونکہ حکومت وقت تو آنی جانی شے ہے ان کو صرف اور صرف قانون کے تابع ہونا چاہئے۔