دنیا میں 50 سے زائد اسلامی ممالک ہیں جن میں دو ارب کے لگ بھگ مسلمان بستے ہیں ان کے مقابلے میں دنیا میں ڈیڑھ کروڑ کے قریب یہودی ہیں جو زیادہ تر اسرائیل اور امریکہ میں آباد ہیں۔ کم تعداد میں ہونے کے باوجود وہ پوری اسلامی دنیا کا مقابلہ کیسے کر رہے ہیں اور مسلمان ممالک بڑی تعداد میں ہونے کے باوجود کیوں فلسطینیوں پر ہونے والے مظالم بند نہیں کر سکتے دیکھا جائے تو کم تعداد میں ہونے کے باوجودیہودی اتنے منظم اور سیاسی مالی اور عسکری لحاظ سے اتنے مضبوط ہیں اور دنیا کے میڈیا پر ان کی اس قدر گرفت ہے کہ امریکہ جیسے ملک میں میں کوئی فرد اس ملک کا صدر بننے کا سوچ بھی نہیں سکتا کہ جب تک کہ اسے ان کی آشیرباد حاصل نہ ہو آج مشرق وسطی میں کوئی ایسا ملک موجود نہیں کہ جو عسکری لحاظ سے اسرائیل کا مقابلہ کر سکے ماض قریب میں اسرائیل اور عرب مسلمان ممالک میں دو جنگیں ہو چکی ہیں اور دونوں میں اسرائیل کامیاب ہوا ہے۔دوسری طرف او آئی سی یعنی اسلامی ممالک کی تنظیم ہے کہ جب بھی ماضی میں کبھی اس قسم کی اسرائیلی جارحیت کا واقعہ پیش آ یا تو اس کے ممبر ممالک کے متعلقہ کرتا دھرتا نے اسرائیل کے خلاف احتجاجی قرارداد پاس کر دی اس کے بعد چپ سادھ لی۔ اسرائیل کو مسلمان ممالک کی آپس میں بے اتفاقی کا اچھی طرح پتہ ہے گولڈا میر 1969 سے لے کر 1974 تک اسرائیل کی وزیراعظم تھیں وہ اپنی کتاب میں لکھتی ہیں کہ جب ہم نے مسجد اقصی میں آ گ لگائی تو میں اس رات سو نہ سکی اس خدشے کے باعث کہ نہ جانے کس وقت تمام عرب ممالک کی افواج اسرائیل میں داخل ہو جائیں ہر دوسرے دن میں اس نتیجے ہر پہنچ گئی کہ مسلم امہ تو سوئی ہوئی ہے اورہم جو بھی کرنا چاہیں کر سکتے ہیں حالاتِ اب بھی جوں کے توں ہی ہیں۔ موجودہ بحران بھی چند روز بعد صابن کی جھاگ کی طرح خود بخود بیٹھ جائے گا بعض ممالک کے نمائندے اقوام متحدہ میں رونا دھونا ضرور کریں گے پر ان کی زیادہ شنوائی نہ ہو گی کیونکہ اسلامی ممالک کا انحصار ان قوتوں پر ہے جو اسرائیل کی پشت پناہی کر رہی ہے اگر اسلامی خود کفیل اور ترقیافتہ ہوتے اور معاشی لحاظ سے مضبوط ہوتے تو وہ اقوام متحدہ میں قوت کے ساتھ آواز اٹھاتے جبکہ اس وقت صورتحال بالکل برعکس ہے۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ آخر اس مرض کی دوا کیا ہے اس سوال کا جواب ڈھونڈنے کیلئے آپ کو چین کی طرف دیکھنا ہوگا جب ماؤ زے تنگ کی قیادت میں وہاں 1949 میں عوامی حکومت قائم ہوئی تو چین کی حالت بھی اتنی ہی پتلی تھی کہ جتنی آج مسلم دنیا کی ہے چینی قیادت دور اندیش تھی اس نے یہ جان لیا تھا کہ اگر چین نے دنیا میں اپنے آ پ کو معتبر بنانا ہے تو اسے سب سے پہلے اپنے آپ کو تعلیمی سائنسی اور معاشی میدانوں میں مضبوط کرنا ہو گا اور اس وقت تک اپنے سیاسی مخالفین کے ساتھ کسی قسم کاپنگہ نہیں لینا ہوگا کہ جب تک وہ اپنے آپ کو ہر لحاظ سے مضبوط نہ کر لیں چنانچہ ہم نے دیکھا کہ 1949 سے لے کر 2014 تک چین صرف اپنے مندرجہ بالا مقاصد کے حصول میں ہی مگن رہا اور وہ جب ہر لحاظ سے اپنے پاؤں ہر کھڑا ہو گیا اور امریکہ کی آ نکھوں میں انکھیں ڈالنے کے قابل ہو گیا ہے تو اس کے سیاسی وزن اور قد وقامت میں اتنا اضافہ ہو گیا ہے کہ دنیا کا کوئی بھی ملک اس سے اب چھیڑ چھاڑ کرنے کا سوچ بھی نہیں سکتا آج وہ دنیا کو ڈکٹیشن دے رہا ہے کوئی بھی ملک اس کو ڈکٹیشن نہیں دے سکتا۔مسلم دنیا نے بھی اگر دنیا میں اپنی عزت کروانی ہے اور اپنے آ پ کو منوانا ہے تو اسے پہلے اپنے گھر کو ٹھیک کرنا ہوگا اپنے تلوں میں تیل پیدا کرنا ہو گا۔شاعر مشرق بہت پہلے اسی بات کی طرف اشارہ کر کے کہہ چکے ہیں کہ
تھے تو تمہارے ہی آ با مگر تم کیاہو
ہاتھ پر ہاتھ دھرے منتظر فرداہو