حادثہ ایک دم نہیں ہوتا۔۔۔۔

وقت کرتا ہے پرورش برسوں‘حادثہ ایک دم نہیں ہوتا۔یہ جو آج کل ہم زندگی کے مختلف شعبوں میں مشکلات کا شکارہیں یہ چشم زدن پیدا نہیں ہوئیں بلکہ ان کے پیچھے ایک لمبی داستان ہے چینی زبان کی ایک کہاوت ہے کہ مچھلی ہمیشہ اوپر سے سڑتی اور گلتی ہے عربی زبان کا ایک محاورہ ہے کہ رعایا اپنے بادشاہوں کے طور طریقے اپنانے کی گوشش کرتی ہے آئیڈیلزم یا تصوریت ایک شے ہوتی ہے جبکہ پریگمیٹزم  یا عملیت پسندی دوسری چیز کا نام ہے آئیڈیل نظام  کے حصول کی خواہش تو ہر فرد اپنے دل میں رکھتا ہے پر وہ اسے شاذ ہی پاتا ہے  البتہ حقیقت پسند لوگ ہمیشہ کامیابی سے ہمکنار ہوتے ہیں اس ملک کے وہ لوگ جو آج کل ستر یا اسی کے پیٹے میں ہیں اور جنہوں نے اس ملک کو مختلف نشیب و فراز سے گزرتا دیکھا ہے وہ اس پوزیشن میں یقینا ہیں کہ اپنے تجربات کی روشنی میں قوم کو بتا سکیں کہ اس کا قافلہ کہاں کہاں لٹا ہے اور اسے کس کس نے لوٹا ہے  اپنی غلطیوں سے سبق لینا عقلمند قوموں کا شیوہ ہوتا ہے آج کل چونکہ انفارمیشن ٹیکنالوجی کا زمانہ ہے۔ تاریخ کی کتابوں میں ڈنڈی نہیں ماری جا سکتی ماضی میں ہونے والے واقعات پر ایک سے زائد کتابیں یا رپورٹیں مل جاتی ہیں لہٰذا  ہر قاری کو حقیقت تک پہنچنے میں زیادہ دشواری نہیں ہوتی ان تمام رہنماؤں کی قلعی کھل جاتی ہے بھلے وہ سیاستدان ہوں  بیوروکریٹس ہوں یا کسی اور طبقے سے تعلق رکھتے ہوں کہ جنہوں نے اپنے دور اقتدار میں مختلف حربوں سے اس ملک کے خزانے پر ڈاکہ مارا  ان کی کارستانیوں کی وجہ سے آج اس ملک کی یہ حالت ہے‘ چور بازاری رشوت سفارش‘ملکی قوانین کوہوا میں اُڑا دینے اور ہر کام میں شارٹ کٹ مار کر راتوں رات ارب پتی بننے کی آرزو نے اخلاقی طور پرہم کو دیوالیہ کر دیا ہے۔اگر بانی پاکستان کو آزادی کے بعد کم از کم اگر دس سال مزید زندگی ملی ہوتی تو غالب امکان تھا کہ وہ اس ملک سے جاگیردارانہ نظام ختم کر دیتے ملک میں زرعی اصلاحات کر دیتے کسانوں اور مزدوروں کیلئے ایک ایسا نظام کاروبار لاتے کہ نہ کوئی زمیندار کسی مزارع کا معاشی استحصال کر سکتا اور نہ کوئی ملز مالک کسی کارخانے کے مزدور کا۔وہ ملک کی بیوروکریسی اور پولیس کے رگ و پا میں یہ بات سرایت کر دیتے کہ وہ صرف اور صرف ریاست اور ملک کے قوانین کے جواب دہ ہیں نہ کہ کسی حکومت وقت کے۔ہمیں اس بات کا اعتراف کر لینا چاہئے کہ قیام پاکستان کے فورا ًبعد بانی پاکستان کی رحلت ہمار ے لئے ایک بہت بڑا قومی سانحہ تھا قائد اعظم نے سچ ہی تو کہا تھا کہ میں جانتا ہوں کہ میری جیب میں اکثر سکے کھوٹے ہیں۔حالات جس قدر بھی برے ہوں مایوسی کی بجائے امید کے دیے روشن رکھے جائیں تو مشکلات سے نکلنے کا راستہ مل ہی جاتا ہے۔ اس وقت جو مسائل عام آدمی کو اور بطورمجموعی قوم کو درپیش ہیں ان کا حل کسی ایک فرد کے بس کی بات نہیں، بلکہ ہر فرد کو اپنی ذمہ داریوں کا احساس کرنا ہوگا اور خرابیوں کا ملبہ دوسروں پر ڈالنے سے گریز کرنا ہوگا۔ دیکھا جائے تو معاشی یا معاشرتی  جتنے بھی مسائل ہیں وہ راتوں رات پیدا نہیں ہوئے بلکہ ایک طویل عرصہ لگا ہے ان مسائل کو جڑیں پکڑنے میں اب اگر ان کا خاتمہ کرنا ہے تو وہ بھی راتوں رات نہیں ہوگا بلکہ بھرپور اور منظم انداز میں اداروں اور افراد کو ملکر ان کے خلاف لڑنا ہوگا تب ہی وطن عزیز کو ان مسائل سے چھٹکارا ملے گا۔یہ کام ہم سب نے ملکر آنے والی نسلوں کی بھلائی کیلئے کرنا ہے اور اس کے علاوہ کوئی دوسرا راستہ نہیں۔