دورہ سعودی عرب، خطے پر ممکنہ اثرات۔۔۔

وزیراعظم عمران خان گزشتہ دنوں کئی اہم امور اور مسائل کے حل کیلئے سعودی عرب کے دورے پر گئے اور وہاں شاہی خاندان کے افراد سے ملاقاتیں کیں۔ ولی عہد محمد بن سلمان سے ملاقات کے دوران دونوں ملکوں کے درمیان باہمی امور پر بات چیت کے علاوہ بھارت، اسرائیل اور یمن کے معاملات پر بھی بات ہوئی۔اس ملاقات کا دو طرفہ اعلامیہ بھی جاری کر دیا گیا ہے جس کے مطابق سعودی شہزادے اور ولی عہد محمد بن سلمان نے وزیراعظم عمران خان کا بہت گرم جوشی سے استقبال کیا۔ دونوں ممالک کے سربراہان نے باہمی دلچسپی کے علاقائی اور بین الاقوامی امور پر گفتگو کی اور ان معاملات پر مشترکہ موقف اختیار کرنے پر اتفاق کیا۔ دونوں ملکوں نے تمام شعبوں میں جاری باہمی تعاون کو مزید بہتر اور مستحکم کرنے پر غور کیا۔ محمد بن سلمان نے وزیراعظم عمران خان کے ”نیا پاکستان“ کو ایک جدید اور فلاحی ریاست میں تبدیل کرنے کے وژن کو سراہا اور اسے سپورٹ کرنے کی مکمل یقین دہانی بھی کرائی۔اس اعلامیے میں مزید کہا گیا ہے کہ وزیراعظم نے سعودی عرب کے بادشاہ شاہ سلمان کے اسلامی اتحاد کے فروغ میں قائدانہ کردار ادا کرنے کو سراہا ہے اور عالم اسلام کو درپیش مسائل حل کرنے پر تعریف کی ہے۔ وزیراعظم عمران خان نے یمن مسئلے کے حل کیلئے سعودی حکومت کے پرامن کردار کو سراہا جب کہ سعودی شہزادے محمد بن سلمان نے افغانستان میں قیام امن کیلئے پاکستان کے کردار کی تعریف کی اور لائن آف کنٹرول پر پاک بھارت فوجی جھڑپوں پر شدید تشویش ظاہر کی۔دونوں ملکوں کے سربراہان نے باہمی تعلق کو مزید بہتر اور مضبوط بنانے کیلئے”سپریم کوآرڈینیشن کونسل“ بنانے کا بھی اعلان کیا۔سعودی وزیر خارجہ فیصل بن فرحان نے اپنے ایک بیان میں کہا ہے کہ وزیراعظم عمران خان کا دورہ سعودی عرب ہمارے لئے بہت اہمیت کا حامل ہے اور سعودی فرمانروا بھی پاکستان کا دورہ کرنے کی خواہش رکھتے ہیں۔ ان کے مطابق اس دورے کا مقصد ہمارے کئی دہائیوں کے تعلقات کو مزید مضبوط کرنا ہے اور آپس میں پیدا شدہ غلط فہمیوں اور ناراضگیوں کو ختم کرنا ہے۔تاریخی طور پر سعودی عرب کے ساتھ ہمارے تعلقات دیرینہ، دوستانہ، برادرانہ اور ہمیشہ مخلصانہ رہے ہیں۔ ہمارا ملک چونکہ شروع سے مختلف معاشی و معاشرتی مسائل سے دوچار رہا ہے اس لئے سعودی عرب نے ہمیشہ مخلصانہ انداز میں ہماری مالی مدد کی ہے، چاہے وہ تیل کی دولت کی شکل میں ہو یا ہمارے لوگوں کو روزگار فراہم کرنے کی شکل میں۔ سانحہ سقوط ڈھاکہ (1971ء) جب رونما ہوا تو ملک معاشی زبوں حالی کا شکار ہوا۔ تب ہزاروں افراد بے روزگار ہو گئے۔ ان حالات کے پیش نظر سابق وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو نے عرب ممالک خاص طور پر سعودی عرب کے ساتھ پاکستانیوں کو روزگار فراہم کرنے کے معاہدے کئے اور ہزاروں کی تعداد میں لوگ وہاں بھیج دیئے۔ اس وقت بھی تقریباً ڈیڑھ ملین پاکستانی سعودی عرب میں برسر روزگار ہیں جو اندازاً کروڑوں ڈالر زرمبادلہ سٹیٹ بینک آف پاکستان کے ذریعے سالانہ ہمارے ملک بھیجتے رہتے ہیں۔ جواب میں پاکستان کی ہر حکومت نے کسی بھی مشکل گھڑی میں سعودی حکومت کا ساتھ دیا ہے۔ سعودی فرمانرواؤں نے بھی ہماری انہی خدمات کے عوض ہر کٹھن اور گھمبیر صورت حال میں ہماری مالی مدد کی ہے۔ماضی قریب میں سعودی عرب کے پاکستان سے بھارت کے معاملے پر تعلقات میں غیر یقینی صورتحال پیدا ہو گئی تھی۔ ان حالات کی وجہ سعودی شہزادے محمد بن سلمان کی شخصیت تھی کیونکہ انہوں نے بھارت میں اربوں ڈالر کی سرمایہ کاری شروع کر دی تھی دوسری جانب اس وقت یمن میں سعودی قیادت میں جاری فوجی آپریشن میں سرگرم حصہ لینے کی درخواست کی گئی تھی۔ تاہم پاکستان نے کئی وجوہات کی بناء پر یہ درخواست قبول نہیں کی جس سے پاک سعودیہ تعلقات میں وقتی طور پر سردمہری آئی تھی۔ ان حالات کے پیش نظر دونوں ملکوں کے تعلقات کے مخالفین نے کچھ اس طرح کی افواہیں پھیلانا شروع کردی تھیں کہ سعودی حکومت ہمارے لاکھوں برسر روزگار پاکستانیوں کو اپنے ملک سے نکال دے گی یہ بھی کہا گیا کہ اسرائیل اور انڈیا سے تعلقات کے حوالے سے بھی پاکستان پر دباؤ ڈالا گیا، تاہم یہ سب باتیں غلط ثابت ہوئیں۔اس حالیہ دورے سے سعودیہ سے ہمارے دیرینہ دوستانہ تعلقات مزید مستحکم ہوئیہیں اور جن لوگوں نے پی ٹی آئی حکومت کے متعلق کشمیر اور فلسطین کے معاملے پر سودے بازی کی افواہیں اُڑائی تھیں وہ بھی دم توڑ گئی ہیں۔