سیاسی مدوجزر۔۔۔۔۔

آ خر وہی ہوا جس کا تذکرہ ہم نے اپنے گزشتہ کالم میں کیا تھا اسرائیل کے خلاف حسب روایت بات مذمتی قرارداد تک ہی محدود رہی‘پر یہ سوال بدستور اپنی جگہ قائم ہے کہ اس سے زیادہ اسلامی ممالک کی موجودہ قیادت اور کر ہی کیا سکتی تھی‘ بے چاری مسلم دنیا کا یہی المیہ ہے کہ اس میں آج باہمی اتفاق اور اعتماد کا بہت زیادہ فقدان ہے اور اس کا اغیار بھرپور فائدہ اٹھا رہے ہیں۔ مریم صفدر پر کبھی کبھی سیاسی سکتہ طاری ہو جاتا ہے اور وہ کئی کئی دنوں تک پراسرار خاموشی اختیار کر لیتی ہیں پر پھر اچانک ان کا لہجہ سخت ہو جاتا ہے اس مدوجزر کی آسانی سے سمجھ نہیں آ تی پی ڈی ایم کے رہنما اس وقت مستقبل کی منصوبہ بندی میں مصروف ہیں۔ جن حالات سے یہ سیاسی اتحاد گزرا ہے ان کو دیکھتے ہوئے یہ کہنا مشکل نہیں کہ یہ اتحاد کب کا بکھر گیا ہوتا کیونکہ اس کے رہنماؤں نے جو اہداف مقرر کئے تھے وہ ابھی حاصل نہیں ہوئے۔ تاہم یہ اتحاد اگر ابھی تک برقرار ہے تو اس کی ایک وجہ تو یہ ہے کہ مولانا فضل الرحمان صاحب صدق دل سے اسے زندہ رکھنے کی کوشش میں مصروف ہیں اور دوسری وجہ حکومت وقت کی مختلف شعبہ ہائے زندگی میں پے در پے غلطیاں ہیں جس کو اجاگر کر کے پی ڈی ایم کے کرتا دھرتا بے پناہ سیاسی فائدہ اٹھا رہے ہیں اور اپنے آپ کو خبروں میں رکھ رہے ہیں کئی سیاسی مبصرین بشمول حکومت وقت کے حمایتی لوگ بھی اب اس بات پر نالاں نظرآ تے ہیں کہ لگ بھگ تین برسوں سے وہ ایوان اقتدار میں ہے پر اب تک وہ صحیح طور پر ڈیلیور نہیں کر پا رہی عام تاثر یہ ہے کہ آئندہ الیکشن میں اگر آج کے حکمران ناکام ہوتے ہیں تو وہ اس لئے نہیں ہوں گے کہ اپوزیشن کوئی توپ چیز ہے بلکہ اس لئے ہوں گے کہ اقتدار میں ان کی اپنی کارکردگی قابل اطمینان نہ تھی۔ یہ بات تو طے ہے کہ کورونا کی وبا اتنی جلدی ہمارا پیچھا چھوڑنے والی نہیں اس لئے ہم کو بطور ایک قوم اس کے ساتھ ایک لمبے عرصے تک جینا ہو گا تجربہ یہ بتلا رہا ہے کہ جب بھی حکومت نے ڈنڈے سے کام لیا اور لاک ڈاؤن میں سختی سے کام لیا تو یکدم اس وبا سے اموات کی شرح گر گئی پر جونہی ہم نے اس ضمن میں غفلت کا مظاہرہ کیا اس سے اموات میں اضافہ ہونے لگا ہم نے بات شروع کی تھی اسرائیل کی بربریت کی اور وہ کہاں سے کہاں پہنچ گئی اب ہم اس کالم کا اختتام ایک کتاب کے حوالے سے کرنا چاہیں گے۔ 1967 میں مصر اور اور اسرائیل کے درمیان جو جنگ ہوئی تھی اس کے بارے میں سر ونسٹن چرچل کے لڑکے نے ایک کتاب لکھی ہے جس کا نام ہے”دی سکس ڈے وار“ اس کے مطالعہ سے پتہ چلتا ہے کہ اسرائیلی اپنے مزموم عزائم کی تکمیل کیلئے ہر قسم کا حربہ استعمال کرتے ہیں انیس سو چھیاسٹھ میں جمال عبدالناصر کی قیادت میں مصر نے اپنی ایئر فورس کو نہایت ہی جدید خطوط پر استوار کر دیا تھا اور مشرق وسطی میں وہ اس وقت سب سے زیادہ مضبوط ائر فورس تصور کی جاتی تھی اسرائیل کو پتہ تھا کہ اگر اس مصری ائر فورس کے جہازوں کو تباہ کر دیا جائے تو مصر کو مکمل طور پر مفلوج کیا جاسکتا ہے اس کتاب کا مورخ لکھتا ہے کہ اسرائیل کی خفیہ ایجنسی نے کمال چالاکی سے خوبصورت ترین یہودی لڑکیوں کو مصر بھجوایا جنہوں نے مصر کے پائلٹوں کے ساتھ مراسم قائم کئے اور پھر ان سے شادیاں کر لیں کتاب میں لکھا ہے کہ وہ لڑکیاں اسرائیل کی انٹیلی جنس ایجنسی کی تربیت یافتہ تھیں اور انہیں تربیت کے دوران ایسے وائرلیس سیٹ مہیا کئے تھے کہ جن کو استعمال کرکے وہ منٹ منٹ کی خبریں اسرائیل کی ایئر فورس کو پہنچایا کرتی تھیں انہوں نے ان کی فراہم کردہ انفارمیشن پر مصر کی فضایہ پر اس وقت حملہ کیا کہ جب طیارے ائر پورٹ ہر کھڑے تھے رات والی شفٹ پر ڈیوٹی کرنے والے پائلٹ گھر جا رہے تھے اور ان کی جگہ ڈیوٹی سنبھالنے والے راستے میں تھے مصری جہاز اسرائیلی حملے کے وقت بالکل خالی تھے اور اس کی ٹائمنگ کے بارے میں اسرائیلی فضائیہ کو اطلاع ان خواتین نے فراہم کی تھی کہ اگر ان اوقات میں وہ ائر سٹرائک کریں گے تو مصری ائر فورس کو وہ سرپرائز دے سکتے ہیں مورخ اپنی کتاب میں لکھتا ہے کہ اس حملے کے دوران ہی وہ خواتین اچانک اپنے گھروں سے غائب ہو گئیں۔