یونی پولر سے ملٹی پولر کی طرف۔۔۔۔۔

صدر ریگن کے دور میں امریکہ  دنیا کی واحد سپر پاور بن گیا تھا جسے پولیٹکل سائنس کی زبان میں یونی پولر unipolar کہا جاتا ہے یہ تب ممکن ہوا کہ جب کمال سیاسی مہارت سے امریکی سی آئی اے نے سوویت یونین کا شیرازہ بکھیر دیا اس وقت چین ارتقائی عمل سے گزر رہا تھا اور سیاسی اور عسکری لحاظ سے اتنا مضبوط نہ تھا کہ امریکہ کی آ نکھوں میں آ نکھیں ڈال کر بات کر سکتا آ ج دنیا میں طاقت کا توازن کافی بدل چکا ہے پیوٹن کی قیادت میں روس اپنی عظمت رفتہ کی تلاش میں ہے اور اپنی نشاط ثانیہ کی جانب رواں دواں ہے چین اب ہر لحاظ سے اتنا مضبوط ہو چکا ہے کہ اس کی مجموعی ترقی دیکھ کر امریکہ کے پسینے چھوٹ رہے ہیں اور وہ خوف سے لرزاں ہے اب دنیا ملٹی پولر multipolar ہو چکی ہے چین اور روس دونوں ایک پیج پر نظر آ رہے ہیں اور یہ امر امریکہ کیلئے ناقابل قبول ہے فلسطین کے معاملے پر اقوام متحدہ میں چین نے جس سخت رد عمل کا مظاہرہ کیا ہے اس نے عالم اسلام کے دل جیت لئے ہیں قبلہ اول پر اسرائیلی افواج کے حملے پر امریکہ کی سرد مہری اور یہودیوں کی کھلم کھلا حمایت نے امریکہ کی مذہبی آزادی کی مبینہ  حمایت کی قلعی کھول کر رکھ دی ہے وہ چین پر  مذہبی آزادی پر قدغن کا الزام تو لگاتاہے پر اس معاملے میں اپنے کرتوتوں سے چشم پوشی کرتا ہے تنگ  آمد بہ جنگ  آمد  کے مصداق آ ج اسرائیل نے فلسطینیوں کو دیوار سے لگا دیاہے صرف خالی خولی مذمتی قراردادوں سے نہ ماضی میں کچھ بنا اور نہ آج کچھ بنے گا ایک آپشن یہ ہے کہ تمام عالم اسلام اقوام متحدہ سے مطالبہ کرے کہ وہ فوراً سے  پیشتر فلسطین میں اقوام متحدہ کی افواج کے دستے تعینات کر دے تاکہ اسرائیل ہر روز نہتے فلسطینیوں پر بمباری نہ کر سکے اسی طرح او آئی سی کو چاہئے کہ وہ غیر مبہم الفاظ میں اسرائیل کو ایک ہفتے کا الٹی میٹم دے کہ اگر وہ فلسطینی عوام پر گولے برسانے سے باز نہ آ یا تو عالم اسلام اپنی مشترکہ افواج کے دستے ان کی حفاظت کیلئے فلسطین میں تعینات کر دے گا آ خر بھٹو صاحب نے بھی تو ماضی میں پاکستان کے پائلٹوں کو شام کی فضائی حدود کی رکھوالی کیلئے ایک مرتبہ شام بجھوایا تھا  جس کی وجہ سے اسرائیل کو جرات نہ ہوئی کہ وہ شام کی فضائی حدود کی خلاف ورزی کر سکے   اس قسم کے انقلابی اقدام کے بغیر اسرائیل کی بربریت کو روکنا محال ہو گا گزشتہ پیر کے روز قومی اسمبلی میں قائد حزب اختلاف اور وزیر خارجہ کی تقاریر اپنی جگہ درست تھیں اور ان میں فلسطین کی صورت حال کا درست احاطہ کیا گیا تھا پر بات وہی ہے کہ زبانی جمع تفریق تو ماضی میں بھی اس مسئلے پر کئی کئی مرتبہ کی گئی پر نتیجہ صفر ہی نکلا کہ اس قسم کی زبان نہ اسرائیل نے پہلے سمجھی ہے اور  نہ اب سمجھے گا اگر مسلم دنیا اسے الٹی میٹم دے گی کہ وہ ہفتے کے اندر اپنی بربریت بند کر دے ورنہ پھر ہم اپنی فوجیں قبلہ اول کی حفاظت کے واسطے وہاں اتار دیں گے تو اس سے اسرائیل کے اندر کھلبلی مچنے کے غالب امکانات ہو سکتے ہیں بادی النظر میں یہ حربہ غیر روایتی دکھائی دیتا ہے پر کبھی کبھی اس قسم کے حربوں سے مطلوبہ نتائج نکل بھی  آ تے ہیں۔  چین اب لگتاہے کہ کھل کر امریکہ کے سامنے آ گیا ہے اب اس کی کوشش ہے کہ وہ مشرق وسطی میں اپنا سیاسی اثر و نفوذ قائم کرے اور اس مقصد کے حصول کیلئے وہ اپنی بے پناہ معاشی برتری اور قوت کا استعمال عمل میں لائے ایسا کر کے چین کے پالیسی ساز ادارے وہاں  امریکہ کا رسوخ ختم کرنے کی کوشش کریں گے ماضی میں سویت یونین تن تنہا امریکہ کے ساتھ  نبردآزما تھا گو چین بھی نظریاتی طور پر اس کے ساتھ تھا  1949 ء میں عوامی انقلاب بر پا کرنے کے بعد چین کو معاشی اور عسکری لحاظ سے اپنے پاؤں ہر کھڑا کرنے میں اس کے حکمرانوں کو اچھا خاصا وقت لگا  جس کے دوران انہوں نے اپنی تمام تر توجہ اپنے ملک کے اندرونی حالات کو مستحکم کرنے پر مرکوز رکھی۔یہ بات اپنی جگہ خوش آئند ہے کہ اب چین نے مشرق وسطی کے معاملات میں مکمل دلچسپی لینا شروع کر دی ہے جس سے یقینا وہاں کے معاملات میں مسلمانوں کیلئے بہتری پیدا ہونے کا قوی امکان ہے۔