بین الاقوامی ہیلتھ اتھارٹیز کے مطابق کورونا کی موجودہ تیسری لہر رواں سال کے جولائی اور اگست کے مہینوں میں وطن عزیز میں اپنے عروج پر ہو گی ٗاس لئے حفظ ماتقدم کے طور پر اس قدرتی آفت سے بچنے کے لئے جو اقدامات حکومت نے اٹھانے ہیں وہ ابھی سے اٹھا لے ٗیہ خبر بلاشبہ کافی تشویش ناک ہے یہ وبا ء اگر ایک طرف انسانوں کو نگل رہی ہے تو دوسری جانب اس نے دنیا کے معاشی طور پرمضبوط ممالک کی معیشتوں کی بھی چولیں ہلا کر رکھ دی ہیں ہم تو خیر کسی شمار میں ہی نہیں ہیں ٗمقام افسوس ہے کہ حکومت کی انتھک کوششوں کے باوجود ابھی تک لوگ اتنی تعداد میں حکومت کے قائم کردہ اینٹی کورونا ویکسینیشن سنٹرز پر انجکشن لگوانے نہیں جا رہے کہ جس تعداد میں انہیں جانا چاہئے اور اس کی بڑی وجہ ویکسینیشن کے خلاف وہ پراپیگنڈہ ہے جو بعض لوگوں نے سوشل میڈیا کے ذریعے پھیلایا ہے اس مقصد کے لئے علمائے کرام کی خدمات حاصل کی جائیں جن کاروزانہ کی بنیاد پر عوام الناس سے پانچ مرتبہ براہ راست رابطہ رہتا ہے وہ اس ضمن میں کافی مؤثر کردار ادا کر سکتے ہیں ٗادھرنیشنل کمانڈ اینڈ آپریشن سینٹر کے سربراہ اسد عمر نے گزشتہ روز کورونا کے باعث پابندیوں میں نرمی کا عندیہ دیتے ہوئے کہا کوشش کررہے ہیں کہ کچھ بندوشوں میں نرمی کی جائے تاہم فوری طور پر زیادہ چیزیں کھولی تو ایسا نہ ہوکہ دوبارہ سب کچھ بندکرناپڑجائے ٗ ٗاور اب آتے ہیں ایک دوسرے اہم مسئلے کی طرف جو حکومت وقت کو درپیش ہے اور وہ ہے قومی اسمبلی اور پنجاب کی صوبائی اسمبلی میں جہانگیر ترین ہم خیال گروپ کا قیام سردست اس گروپ نے دعویٰ کیا ہے کہ اسے پنجاب اسمبلی میں 32 ارکان اور قومی اسمبلی میں آٹھ ارکان کی حمایت حاصل ہے ٗجہانگیر ترین کی جانب سے پارٹی میں علیحدہ گروپ تشکیل دینے کی اطلاعات کے بعد پی ٹی آئی اراکین کی جانب سے وزیراعظم کو بھرپور حمایت کا یقین دلایا گیا ٗادھرپاکستان تحریک انصاف کے پرانے ورکرز کو یہ خدشہ ہے کہ کہیں ان کے گھر کو گھر کے چراغ سے ہی آگ نہ لگ جائے ٗ جو لوگ وزیراعظم عمران خان کے مزاج کو اچھی طرح سے جانتے ہیں ان کے خیال میں وہ کسی کی بلیک میلنگ میں آنے کے بجائے یہ بہتر سمجھیں گے کہ نئے عام انتخابات کے آ پشن کی طرف قدم اٹھائیں بہرحال آئندہ تین چار ہفتے اس لحاظ سے بڑے اہم ہیں ان میں وزیر اعظم صاحب مستقبل کے بارے میں شاید کوئی اہم سیاسی فیصلہ کریں ویسے اگر باالفرض محال اسمبلیوں کو تحلیل کر کے نئے عام انتخابات کا فیصلہ کر لیا جاتا ہے تو اس ضمن میں متعلقہ فریقین کو کافی سوچ بچار کرنی ہوگی ٗ نئے الیکشن کے اعلان کے بعد تمام سیاسی پارٹیاں غیر معمولی طور پر متحرک ہو جاتی ہیں اور ان میں بڑے بڑے جلسے اور جلوسوں کا ایک لمبا سلسلہ شروع ہو جاتا ہے ٗ کیا ملک کو کورونا وائرس سے آئندہ اگست تک جو ممکنہ خدشہ ہے اس کے پیش نظر آئندہ تین چار ماہ کے اندر عام انتخابات کرانے کا فیصلہ کوئی دانشمندانہ عمل ہو گا؟دریں اثناء معلوم ہوا ہے کہ حکومت اور جہانگیر ترین گروپ کے درمیان معاملات طے پاگئے،گزشتہ روز حکومت اور جہانگیر ترین گروپ کے درمیان پہلا باضابطہ رابطہ ہوا ہے۔ سینئر وفاقی وزرا ء نے جہانگیر ترین سے رابطہ کیا جس کے بعد معاملات طے پا گئے ہیں۔