یہ خبر پڑھ اور سن کر ہر پاکستانی کو تشویش ہوئی کہ بھارتی سفارتی عملے کی ایک خاتون جو حال ہی میں پاکستان آئی ہیں وہ کورونا میں مبتلا تھیں جبکہ بھارت والوں نے انہیں نیگٹیو قرار دے کر ضروری سر ٹیفکیٹ بھی جاری کر رکھا تھا‘بھارت سے واپس آنے والی خاتون کا کورونا ٹیسٹ پازیٹوآنے کے بعد اسلام آباد میں بھارتی سفارتخانے نے اپنے ملک سے واپس آنے والے عملے اوران کی فیملیز کے 12ارکان کو قرنطینہ کردیا ہے، بھارت کے غیر سفارتی عملے میں شامل ایک خاتون گزشتہ روز بھارتی امیگریشن حکام کی نااہلی کے باعث پاکستان آگئی تھیں۔بھارتی سفارتخانے کے عملے کے ارکان اوران کی فیملیز چھٹیاں گزارنے اپنے ملک گئے تھے‘یہ سنگین قسم کی غفلت کس کی تھی؟ کیونکہ بھارت میں کورونا کی جو موجودہ قسم کی وباء پھیل چکی ہے وہ نہایت ہی مہلک ہے اور اس سے ایک دنیا پناہ مانگ رہی ہے‘ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن والے اس بات کے خدشے کا اظہار کر چکے ہیں کہ پاکستان بھی اسی قسم کی کورونا کی لہر کا جولائی اور اگست 2021 ء میں شکار ہو سکتا ہے کہ جس نے گزشتہ دو ماہ سے بھارت کو اپنی لپیٹ میں لے رکھا ہے‘ادھر ڈبلیو ایچ او نے انکشاف کیا ہے کہ 11مئی سے اب تک 4مزید ممالک کی جانب سے کورونا وائرس کی بھارتی قسم کی اطلاع دی گئی ہے۔ یہ ممالک بحرین، ایران، اردن اور مراکش ہیں۔ دنیا بھر میں مجموعی طور پر 44ممالک اپنے ہاں اس نوعیت کے کور ونا وائرس کی موجودگی کے بارے میں آگاہ کر چکے ہیں۔اس حوالے سے عالمی ادارہ صحت کا کہنا ہے کہ بھارت میں کورونا کے متاثرین اور اس کے سبب اموات کی تعداد میں اضافہ خطرناک اور سنگین ہے۔ کورونا کی نئی اقسام قابل تشویش ہیں۔اس صورتحال میں یہ بات نا قابل فہم ہے کہ ہماری حکومت نے اسی روز سے ہی پاکستان میں بھارت سے آ نے والے لوگوں کی انٹری پر پابندی کیوں نہیں لگائی کہ جس دن سے انگلستان نے فوری طور پر ان کی انگلستان میں داخلے پر لگا دی تھی حکومت نے کورونا کے پھیلاؤکو روکنے کیلئے جو پابندیاں لگا رکھی تھیں ان کو نرم کرنے میں عجلت سے کام لینے کی قطعا ًضرورت نہیں کیونکہ یہ خطرہ ابھی ٹلا نہیں ہے‘اگست تک نہایت احتیاط کی ضرورت ہے‘یہ درست ہے کہ ان پابندیوں سے معیشت کا بیڑہ غرق ہو گیا ہے پر جہاں ستیاناس وہاں سوا ستیاناس‘جان ہے تو جہان ہے انسانی زندگی کے بچاؤسے زیادہ اہم کوئی شے نہیں ہو سکتی اس ملک کا عام آ دمی آج بھی بعد از خرابی بسیار ایس او پیز پر عمل اگر نہیں کر رہا تو اس کے اس رویئے پربجز اس کے اور کیا کہا جا سکتا ہے کہ
پھول کی پتی سے کٹ سکتا ہے ہیرے کا جگر
مرد ناداں پر کلام نرم و نازک بے اثر
جو لوگ اپنے پاؤں پر خود کلہاڑی مارنے پر تلے ہوں تو ان کو کون روک سکتا ہے اور اب ذرا چند باتیں ایک دوسرے معاملہ کے بارے میں ہو جائیں کہ جس کا تعلق بھی وطن عزیز کی سلامتی کے ساتھ براہ راست ہے‘ایک عرصے سے ہم آزاد کشمیر کے بارڈر پر ہندوستان کی مسلسل فائرنگ سے پریشان تھے یہ سلسلہ اب ہمارے مغربی بارڈر پر بھی چل نکلا ہے‘گویا یک نہ شد دو شد‘ یہ بات کوئی مشکل نہیں کہ کسی کی سمجھ میں آسانی سے نہ آئے کہ جس دن سے ڈیورنڈ لائن پر باڑ لگانا شروع کی گئی تھی تو بھارت کے پیٹ میں مروڑ اٹھ رہا ہے‘اس قسم کے واقعات سے حکومت کو بالکل دلبرداشتہ نہیں ہونا چاہئے اور اور اسے جلد سے جلد ڈیورنڈ لائن کو مکمل طور پر باڑ لگا کر سیل کر دینا چاہئے تاکہ کوئی دہشت گرد پاکستان کے اندر اس راستے سے داخل نہ ہو سکے اس کے ساتھ ساتھ وزارت داخلہ کو فوراً سے پیشتر اس کے ساتھ امیگریشن کے نظام کے اندر ایک ایسا میکنزم بنانا چاہئے جس کے تحت افغانستان سے جو بھی پاکستان آئے وہ پاسپورٹ اور ویزے کے ذریعے آئے۔