کچھ عرصہ پہلے امریکی صدر جو بائیڈن نے روسی صدر پیوٹن کو قاتل کہہ کر پکارا تھا نیرنگیِ سیاستِ دیکھیئے اب ان دونوں رہنماؤں کی اگلے ماہ ملاقات ہو رہی ہے‘امریکہ کے پالیسی ساز ادارے میں ایسے لوگ موجود ہیں کہ جو یہ چاہتے ہیں کہ کسی نہ کسی حربے سے چین اور روس کے درمیان دراڑ پیدا کی جا ئے کیونکہ اگر ان دونوں میں قربتیں بڑھ گئیں تو بین الاقوامی امور میں امریکہ کی کئی معاملات میں دال نہیں گلے گی اب دیکھنا یہ ہے کہ امریکن سی آئی اے کس حد تک کامیاب ہوتی ہے،روس اور چین کی موجودہ قیادت کو اس بات کا ادراک اور اندازہ ہے کہ ماضی کی غلطیوں سے اجتناب کیا جائے،دنیاوی امور میں یکجا ہو کر کام کرنا ان دونوں کیلئے سودمند ہے،بجائے اس کے کہ وہ اپنے لئے جدا جدا راستے متعین کریں، اگلے ماہ ہی ہمارے ہمسایہ ملک ایران میں صدارتی انتخابات ہونے جا رہے ہیں۔ایران کا ایک اپنا منفرد قسم کا الیکٹورل سسٹم ہے کہ جو کئی سیاسی مبصرین کی نظر میں نرالے قسم کا ہے چونکہ امریکہ کو یہ خدشہ ہے کہ چین اور روس کہیں ایران میں اپنا اثر و نفوز زیادہ نہ کر لیں وہ اب شاید ایران پر سے اقتصادی پابندیاں اٹھا لے تاکہ اس کی خیر سگالی حاصل کر سکے اور اگر ایساہوتا ہے تو ایران کی معیشت کے لئے کافی سودمند بات ہو گی۔اس خطے میں آج سی پیک سے اہم شاید ہی کوئی ترقیاتی منصوبہ ہو،اس لئے وہ بھارت اور امریکہ دونوں کی انکھوں میں کھٹک رہا ہے بھارت ہماری خیر خواہی نہیں چاہتا اور امریکہ چین کا بیری ہے دونوں کی روز اول سے ہی یہ کوشش رہی ہے کہ کسی نہ کسی طرح سے اس میں روڑے اٹکائے جائیں اس ملک کے تمام محب وطن عناصر کی خواہش ہے کہ وزیراعظم صاحب گوادر کا زیادہ سے زیادہ دورے کیا کریں اور اس منصوبے میں ہونے والے کام کے معیار اور رفتار پر ذاتی طور پر گہری نظر رکھیں ویسے بھی قطع نظر اس بات کے کہ 18 ویں ترمیم کی وجہ سے صوبائی حکومتیں کافی حد تک خودمختار ہیں پر اہم قومی نوعیت کے امور میں مرکزی حکومت کی طرف سے سخت نگرانی از حد ضروری ہے،اب ذرا آ تے ہیں ملکی سیاست کی طرف کہ جس کے بارے میں صرف یہی کہا جا سکتا ہے کہ اونٹ رے اونٹ تیری کونسی کل سیدھی،نواز لیگ اور پی پی پی کے درمیان اختلافات اب کھل کر سامنے آ گئے ہیں۔ یہ تو چلو خیر تصویر کا ایک پہلو ہے دوسرا رخ یہ ہے کہ مریم نواز نواز لیگ کو اپنی سیاسی وراثت تصور کرتی ہیں اورکسی طور اس بات کو ذہنی طور پر ماننے کیلئے تیار ہی نہیں کہ کسی اور کے ہاتھوں میں ان کی پارٹی کی قیادت چلی جائے،اب تو جوں جوں عام انتخابات کا وقت نزدیک آ تا جا رہاہے اکثر سیاسی رہنماؤں میں یہ سوچ پکڑ رہی ہے کہ کیوں نہ الیکشن کیلئے ابھی سے نئی صف بندیاں شروع کر دی جائیں وہ اب حکومت وقت کو گرانے میں اتنی دلچسپی نہیں رکھتے یہ بات بھی ممکنات میں ہے کہ شاید پی ڈی ایم میں جو اس وقت سیاسی جماعتیں ہیں وہ ہر صوبے میں زمینی حقائق کو مدنظر رکھتے ہوئے موقع کی مناسبت سے اپنی ہم خیال سیاسی پارٹیوں سے الیکشن کیلئے اتحاد کریں،اسی طرح کا طرز عمل شاید پی ٹی آئی بھی اپنائے،لگتا یہ ہے کہ آ ئندہ الیکشن میں تین کے قریب الیکشن اتحاد آپس میں نبرد آزما ہو سکتے ہیں اور جس قسم کے زمینی سیاسی حقائق ہیں ان کے پیش نظر آئندہ جو بھی حکومت اس ملک میں بنے گی وہ بھی مخلوط حکومت ہی ہو گی،یہی شاید اس ملک کا سیاسی مقدر ہے کسی ایک ہی سیاسی پارٹی کا دو تہائی نشستوں سے الیکشن جیت کر تن تنہا از خود اپنی عدوی قوت کے بل بوتے پر حکومت بنانا معجزے سے کم نہ ہوگا۔