ریشہ دوانیوں کا نیا دور

  چند گھنٹوں بعد ہمارے ہمسایہ ملک ایران میں صدارتی انتخاب ہونے جا رہا ہے، وطن عزیز کی طرح ایران بھی آج کل سخت معاشی بحران کا شکار ہے اس کی معاشی حالت دگرگوں ہے،یہاں سخت مہنگائی،بیروزگاری کی شرح 12 فیصد تک جا پہنچی ہے، ایک دور ایسا تھا کہ جب امریکہ اور دیگر کئی ممالک اس کے تیل کے محتاج تھے، پر آج پوزیشن یہ ہے کہ امریکہ تقریبا ًاتنی ہی تعداد میں تیل ازخود پیدا کر رہا ہے کہ جتنا سعودی عرب پیدا کرتا ہے، ایران کی آبادی تقریبا ًآٹھ کروڑ ہے جس میں سے پانچ کروڑ کے قریب ووٹرز ہیں اس وقت تک تو ایران میں قدامت پسند سیاستدانوں کا زور ہے اور شاید وہ اس وقت تک برسراقتدار رہیں کہ جب تک امام خامنہ ای اس ملک کے رہبر کا عہدہ اپنے پاس رکھتے ہیں جس وقت یہ کالم چھپے گا اس وقت تک شاید امریکی صدر جو بائیڈن اور روسی صدر پیوٹن کی ملاقات ہو چکی ہوگی یہ دونوں رہنما ایک دوسرے پر بالکل اعتبار نہیں کرتے اس لئے ابھی یہ کہنا قبل از وقت ہوگا کہ ان دونوں کے درمیان جو فیصلے اس سربراہ میٹنگ میں ہو گئے ہیں اس پر وہ کس حد تک عمل پیرا ہوں گے۔روس کے صدر پیوٹن ایک لمبے عرصے تک سوویت یونین کی خفیہ ایجنسی کے جی بی کے سربراہ رہے ہیں اور وہ امریکہ کی ان ریشہ دوانیوں سے بخوبی باخبر ہیں کہ جن کے ذریعے امریکن سی آئی اے نے سوویت یونین کے ٹکڑے کر کے وسطی ایشیا ء کی ریاستوں کو اس کے دائرہ اختیار سے آزاد کیا،آج روس میں ایسے لوگوں کی ایک اکثریت موجود ہے کہ جن کو سوویت یونین کے ٹکڑے ٹکڑے ہو جانے سے سے زخم لگے ہیں، وہ دل سے امریکہ کو کبھی معاف نہیں کر سکتی، روس نے دھیرے دھیرے ان سابقہ وسطی ایشیا ء کی ریاستوں میں دوبارہ اپنے قدم جمانے کی کوشش شروع کر دی ہے کہ جنہیں انیس سو اسی کی دہائی میں امریکی سی آئی اے نے ایک سازش کے ذریعے سوویت یونین سے جدا کر دیا تھا اب کی دفعہ روس نہایت پھونک پھونک کر قدم رکھ رہا ہے اور اس نے چین کے ساتھ قریبی تعلقات بنا رکھے ہیں،پیوٹن کو اس بات کا ادراک ہو گیا ہے کہ اگر اس نے بین الاقوامی سیاست اور دنیا کی معیشت میں امریکہ کو مات دینی ہے یا اس نے امریکہ سے اپنے پرانے بدلے چکانے ہیں تو اس کے لئے اسے چین کے شانے کے ساتھ شانہ ملا کر چلنا ہو گا، پولیٹیکل سائنس اور تاریخ کے طالب علم اس حقیقت سے بخوبی باخبر ہیں کہ گوکہ چین اور سوویت یونین دونوں کمیونسٹ آئیڈیالوجی پر یقین رکھتے ہیں پر ماضی میں ماو زے تنگ کے دور سے لے کر چند برس قبل تک چین اور روس کی قیادت میں کافی حد تک سرد مہری رہی گو کہ انہوں نے عالمی امور میں ایک دوسرے کی مخالفت نہیں کی پر انہوں نے اس میں اس گرمجوشی کا کبھی مظاہرہ نہ کیا کہ جو کمیونسٹ ملک ہونے کے ناطے انہیں کرنا چاہئے تھا،ادھر امریکہ کی قیادت میں مغربی میڈیا نے ایک نہایت ہی منظم سازش کے ذریعے دنیا میں چین کے بارے میں یہ تاثر پیدا کرنے کی کوشش شروع کر دی ہے کہ چین کے اندر کسی کو بھی مذہبی آزادی حاصل نہیں،یہودی کھلم کھلا فلسطینی مسلمانوں پر جو ظلم ڈھا رہے ہیں وہ انہیں نظر نہیں آ تا،جو بائیڈن نے حال ہی میں برطانیہ اور یورپ کے دیگر ممالک کا دورہ کیا ہے وہ اسی سلسلے کی کڑی کا آغاز ہے اس دورے میں بائیڈن نے چین اور روس کے بارے میں نئی پالیسی کی بنیاد رکھ دی ہے۔