آ خری محاذ۔۔۔۔

 لگ یہ رہا ہے کہ دنیا میں اس وقت جس موسمیاتی تبدیلی کا اکثر کئی ممالک میں رونا رویا جا رہا ہے وہ کم از کم روس کیلئے تو قدرت کی طرف سے ایک چھپا ہوا تحفہ ہے‘سوال مگر یہ پیدا ہوتا ہے کہ وہ کیسے؟وہ ایسے کہ بحر قطب شمالی جو جغرافیائی محل وقوع کے لحاظ روس کے قریب ترہے اب تک برف سے جما ہوا تھا جس میں جہاز رانی نا ممکن تھی اب موسمیاتی تبدیلی سے وہ جگہ جگہ پگھل رہا ہے اور جمی ہوئی برف اب پانی کی شکل اختیار کر چکی ہے اور روس نے اس علاقے میں نئی بندرگاہیں بھی بنا ڈالی ہیں اور ان میں اپنی بحریہ بھی کھڑی کر دی ہے پر سب سے بڑی بات یہ ہے کہ اب وہ چین اور دیگر ممالک کو یہ پیشکش بھی کر رہا ہے کہ چونکہ بین الاقوامی سطح پر تجارت کرنے کیلئے ان کو بحر قطب شمالی کا یہ نیا رستہ بہت سستا اور نزدیک تر پڑے گا لہٰذا وہ اسے استعمال کریں بالفاظ دیگر جس طرح گوادر کی بنددگاہ ہمارے لئے سونے کی چڑیا ہے آ رکٹک اوشن کا یہ نیا رستہ روس کی معیشت کو چار چاند لگا دے گا اور یہ بات اس کا پرانا حریف امریکہ بھلا کیسے ہضم کر سکتا ہے اور یہی وجہ ہے کہ امریکی صدر نے اپنے حالیہ دورہ یورپ میں یہ عجیب قسم کی منطق پیش کی ہے کہ قطب شمالی کے بحر کی بین الاقوامی حیثیت ہونی چاہئے اور اس پر دیگر ممالک کا بھی اتنا ہی حق ہونا چاہئے کہ جتنا روس کا ہے سیاسی مبصرین کو یہ خدشہ ہے کہ بحر قطب شمالی پر امریکہ کی میلی نظر اس لئے بھی ہے کہ اس کی جمی ہوئی برف کی تہہ میں قدرتی معدنی وسائل یعنی تیل گیس وغیرہ کے ذخائر موجود ہیں جو اگر روس ہی کے ہاتھ لگ گئے تو اس کی معیشت کے تو وارے نیارے ہو جائیں گے اس بات میں اب کوئی شک نہیں کہ امریک اور اس کے ہم خیال ممالک اور روس چین اور ان کے ہم خیال ممالک کے درمیان اب کی دفعہ دنیا کے قددتی وسائل پر قبضہ کرنے کی جو سیاسی اور عسکری جنگ ہو گی اس کا آ خری محاذ بحر قطب شمالی ہو سکتا ہے۔اگلے روزیورپ میں امریکی اور روسی صدور کے درمیان حال ہی جو گفت و شنید ہوئی ہے اس میں تلخی کا عنصر نمایاں تھا جب امریکی صدر نے روسی صدر کی توجہ روس کے اندرہونے والی مبینہ انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کے واقعات کی ظرف مبذول کرالی تو روسی صدر نے ان سے یہ کیا کہ ان کو یہ کہنے کا حق اس لئے نہیں کہ امریکہ کے اندر بھی تو کالوں کو روزانہ تشدد کا نشانہ بنایا جا رہا ہے۔طالبان کے ایک رہنما کا کہنا ہے کہ امریکیوں کے بغیر افغان فوج پانچ دن بھی نہیں گزار سکتی اس کے برعکس افغان حکام یہ کہتے ہیں کہ وہ طالبان کا زور توڑنے کی مکمل صلاحیت رکھتے ہیں ان بیانات سے تو اس بات کا عندیہ ملتا ہے کہ افغانستان ایک مرتبہ پھر تشدد کی راہ پر جانے والا ہے اقوام متحدہ کے ہائی کمشنر برائے مہاجرین کے ایک سینئر رکن کے بیان کے مطابق افغانستان سے غیر ملکی افواج کے مکمل انخلاء کے بعد مزید افغان مہاجرین پاکستان آ سکتے ہیں یہاں پر اس بات کا ذکر بھی ضروری ہے کہ اقوام متحدہ کے ہی ریکارڈ کے مطابق پاکستان میں اس وقت بھی 14 لاکھ افغان مہاجرین موجود ہیں جن کی میزبانی کے فرائض حکومت پاکستان ادا کر رہی ہے۔جوں جوں دن گزر رہے ہیں افغانستان سے امریکی افواج کے انخلا کی تاریخ نزدیک آتی جا رہی ہے اور ابھی تک افغانستان ایک غیر یقینی صورت حال سے دوچار ہے یہ بالکل پتہ نہیں چلتا کہ افغانستان سے امریکی فوجوں کے واپس ہو جانے کے بعد وہاں امن قائم کرنے کی گارنٹی کون دے گا۔ خدشہ یہ ہے کہ اس خلا کو پر کرنے کیلئے مختلف سیاسی نظریات رکھنے والے افغان گروہ میدان عمل میں کود پڑیں اور اگر ایسا ایک دفعہ ہو گیا تو پھر افغانستان ان متحارب گروہوں کے درمیان جنگ و جدل کا شکار ہو سکتا ہے اور اس صورتحال میں پھر پاکستان اور ایران سمیت پڑوسی ممالک کیلئے نئے مسائل کھڑے ہو سکتے ہیں۔اس لئے افغانستان کے حوالے سے حالات پر نظر رکھنا ضروری ہے اور پاکستان نے سرحدوں پر آمدورفت کو باقاعدہ بنانے کے لئے جو کوششیں کی ہیں ان کے فوائد اس صورتحال میں نظر آسکتے ہیں تاہم مزید موثر اقدامات سے بھی گریز نہیں کرنا چاہئے۔