صحیح معنوں میں بڑے لوگ۔۔۔۔

یہ 1966کی بات ہے بیجنگ میں ثقافتی انقلاب کے سلسلے میں ایک تقریب ہو رہی تھی جس میں چین کے لیڈر ماوزے تنگ مہمان خصوصی تھے تقریب میں موجود چین میں پاکستان کے سفیر نے یہ نوٹ کیا کہ ماو زے تنگ نے جو بوٹ پہن رکھے ہیں وہ کافی پرانے ہیں۔ ان ہر جگہ جگہ پیوندکاری ہوئی ہے۔ہمارے سفیر کی چین کی کمیونسٹ پارٹی کے ایک اعلی عہدے دار سے کافی گپ شپ تھی تقریب کے اختتام پر انہوں از راہ مذاق ان سے کہا کہ یار اب تم اتنے بھی تو غریب نہیں ہو کہ اپنے ملک کے سر براہ کیلئے نئے جوتے بھی نہ خرید سکو۔ یہ سن کر کمیونسٹ پارٹی کے اس لیڈر نے مسکرا کر یہ کہا کہ نہیں ایسی کوئی بات نہیں اصل بات یہ ہے کہ چند ماہ قبل ماو زے تنگ ایک کارخانے کا معائنہ کر رہے تھے کہ جب انہوں کئی مزدوروں کو ننگے پاوں کام کرتے دیکھا جب انہوں نے ان سے یہ پوچھا کہ ان کے جوتے کہاں ہیں تو ان کا جواب یہ تھا کہ ہماری جیب اس بات کی اجازت نہیں دیتی کہ ہم اپنے لئے نئے جوتے خرید سکیں یہ سن کر ماو زے تنگ نے انہیں کہا کہ میں بھی اب اس وقت تک نئے بوٹ نہیں خریدوں گا کہ جب تک ہر چینی اس قابل نہ ہو جائے کہ وہ اپنے لئے نئے جوتے خرید سکے چنانچہ اب جب بھی ان کا جوتا کہیں سے پھٹتا ہے تو اس کی بجائے کہ وہ نیا جوتا خریدیں ان کے پھٹے ہوہے جوتے کو موچی کے پاس بھجوا کر اس کی پیوندکاری کرا لی جاتی ہے۔ نیلسن منڈیلا کی سادہ زندگی کا بھی یہی عالم تھا ان لوگوں نے اپنے پیچھے نہ کوئی لمبی چوڑی جائدادیں چھوڑیں اور نہ موروثی سیاست کو وطیرہ بنایا ورنہ آج اپ کو چین اور جنوبی افریقہ میں ان کے بال بچے مسند اقتدار پر نظر آ تے اس ضمن میں درجنوں دیگر مثالیں پیش کی جا سکتی ہیں جو اس کالم کے محدود حجم کی وجہ سے کسی اور وقت پیش کریں گے کئی ممالک بشمول وطن عزیز کا المیہ یہ ہے کہ ہمیں ایسے حکمران نصیب ہوتے رہے کہ جو ان صفات سے عاری تھے کہ جو ایک انصاف پسند اور احساس رکھنے والے حکمران کا خاصہ ہونا چاہئے۔ خربوزے کو دیکھ کر خربوزہ رنگ پکڑتا ہے ایک عربی کہاوت ہے کہ رعایا اپنے حکمرانوں کا چلن اپنانے کی کوشش کرتی ہے اگرہمارے حکمرانوں نے اس ملک میں اپنے کردار سے اچھی سیاسی روایات قائم کی ہوتی تو آج ہم کو اپنے معاشرے میں وہ قباحتیں نظر نہ آتیں جو آج دیمک کی طرح ہمارے ہر سرکاری ادارے کو اندر سے چاٹ رہی ہیں۔ آج بد اعتمادی کا یہ عالم ہے کہ اس خدشے کے پیش نظر کہ کسی اشیائے خوردنی میں ملاوٹ نہ ہو صارفین ان کو بازار سے خریدنے کے بجائے انہیں اپنی آ نکھوں کے سامنے پسواتے ہیں۔ ہر محکمے کو مختلف مدات میں ہر سال لاکھوں روپے کے فنڈز ملتے ہیں آ ڈٹ والوں کی ملی بھگت سے ان رقوم کا ایک بڑاحصہ بد عنوانی کا کی نذر ہوجاتا ہے۔ فوڈ اتھارٹی کی موجودگی کے باوجود مردہ اور بیمار مویشیوں کا گوشت صارفین پر فروخت کیا جاتا ہے۔مگر ان کو قرار واقعی سزا نہیں دی جاتی۔ہمارے معاشرے میں اخلاقیات کا اس قدر فقدان ہو چکا ہے اب تو ٹھنڈے دل و دماغ رکھنے والے بھی یہ سوچنے پر مجبورہو گئے ہیں کہ اب اس معاشرے میں کرپشن کا کینسر اس قدر سرایت کر چکاہے کہ اس کا علاج بغیر سرجری کے ناممکن ہے۔