امریکی چالبازیاں ۔۔۔۔

یہ بات سمجھ سے بالا تر ہے کہ آخر 18 ہزار افراد افغانستان میں کس مقصد کیلئے چھوڑے جا رہے ہیں یہ تو دال میں کچھ کالا ہے والی بات ہے کیا امریکہ افغانستان میں اپنی ریگولر فوج کے بجائے کرائے کے فوجیوں سے وہ کام کروانا چاہتا ہے کہ جو ماضی میں اس کی ریگولر آ رمی کرتی رہی ہے؟ سوال یہ ہے کہ جب افغانستان خصوصا ًاس اس کے دارالحکومت کابل سے تمام امریکی فوجی کوچ کر جائینگے تو ان کے جانے کے بعد کابل ایئر پورٹ کی نگرانی اور حفاظت کون کریگا کہ افغان پولیس اور افغان نیشنل آ رمی کیلئے یہ ایک مشکل چیلنج ہوگا۔ افغانستان کیساتھ دیگر ممالک کا رابطہ اس صورت میں منقطع ہونیکاخدشہ ہے اگر کابل ایئرپورٹ پر موجودہ افغان حکومت کا کنٹرول ختم ہو جائے کہ جسکا خطرہ ہے۔ کچھ عرصہ پہلے یہ بات چلی تھی کہ شاید ترکی افواج کے دستے کابل ایرپورٹ کی حفاظت پر کچھ عرصے تک مامور ہوجائیں پر طالبان نے اس امکان کو یہ کہہ کر کافی حد تک مسترد کر دیا ہے کہ گو ترکی ان کا برادر مسلم ملک ہے پر وہ اپنی سرزمین پر کسی بھی خارجی کو ٹھہرنے کی اجازت نہیں دے سکتے ترکی کا افغانستان کے لیڈر رشید دوستم کی طرف کافی جھکاؤ ہے کہ جو نسلی لحاظ سے ترکوں کے کافی قریب ہیں اور یہ بات افغانستان میں طالبان کو نہیں بھاتی ہمیں تو افغانستان سے امریکی افواج کا انخلا کچھ عجیب قسم کا انخلاء نظر آتا ہے کہ جس میں افغانستان کے مستقبل کا کوئی فریم ورک نہیں دیا گیا تادم تحریر کسی کو یہ پتا نہیں کہ جب افغانستان سے آخری  امریکی فوجی نکل جائیگا تو وہاں کیا موجودہ افغان حکومت اپنے زور بازو اور موجودہ انتظامی ڈھانچے کے ذریعے اپنی رٹ کو قائم بھی رکھ سکے گی یا نہیں اشرف غنی صاحب نے یہ دعوی تو کر رکھا ہے کہ افغانستان سے امریکی افواج کے انخلا کے بعد وہ از خود حکومت چلانے کے اہل ہیں۔ یقینا ستمبر2021 کے بعد ان کے امتحان کا وقت ہوگا کہ ان کا یہ دعویٰ کس قدر درست ہے موجودہ حالات میں نظر یہ آرہاہے کہ افغانستان سے امریکی افواج کے انخلا کے بعد زیادہ امکان اس بات کا ہے کہ وہاں پر خونریزی کا ایک نیا دور شروع ہونیوالا ہے سانپ کا ڈسا ہوا رسی سے بھی ڈرتا ہے ہے ہم ایک مرتبہ اس معاملے میں میں کافی ڈسے جا چکے ہیں حکومت کو اس قسم کی حکمت عملی اپنانی ہوگی کہ افغانستان کے اندر متحارب سیاسی گروپوں میں سے ہم کسی ایک کیساتھ ساتھ شامل نہ ہوں اور دوسری بات یہ ہے کہ خانہ جنگی کی صورت میں اگر افغانستان سے کچھ لوگ پاکستان میں داخل ہونا چاہیں جسکا غالب امکان ہے تو ان کو پاکستان کے علاقے میں داخل ہونیکی بجائے ان کیلئے پاک افغان سرحد پر ہی اقوام متحدہ کے تعاون اور ان کی زیر نگرانی رہائشی کیمپ لگائے جائیں اور اس بات کا سختی سے اہتمام کیا جائے کہ افغان مہاجر وطن عزیز میں کسی راستے سے داخل نہ ہوں ایسا کرکے ہم ان مسائل کا تدارک کر سکتے ہیں کہ جو اس صورت میں یقینا پیدا ہونگے اگر افغان مہاجرین بلا روک ٹھوک پاکستان میں داخل ہوں۔ افغانستان کے ممکنہ مخدوش مستقبل کو دیکھ کر ہر محب وطن پاکستانی سخت  تشویش کا شکار ہے اور اس کے ذہن میں یہ سوال ابھر رہا ہے کہ کیا ہماری وزارت خارجہ نے اس ضمن میں ممکنہ مسائل انتظامی معاشی معاشرتی اور سیاسی مسائل پیدا ہو جانے کی صورت میں کوئی ہوم ورک ابھی سے کیا بھی ہے یا نہیں کیونکہ امریکی فوجوں کے انخلاء کے بعد افغانستان میں شدید خانہ جنگی کا خدشہ ابھی سے ہی ہمارے سر پر منڈلا رہا ہے اور اسکی اگر ابھی سے ہی پیش بندی نہ کی گئی تو یہ ملک سنگین قسم کے مختلف مسائل کا شکار ہو سکتا ہے۔ انیس سو اسی کی دہائی سے سے وطن عزیز تواتر کے ساتھ افغانستان کے اندر پھیلی ہوئی سیاسی بے چینی سے پیدا ہونے والے مختلف قسم کے مسائل کا شکار ہو رہا ہے اور یہ ایسے مسائل ہیں کہ جو ختم ہونے کا نام ہی نہیں لیتے۔