گزشتہ چند دنوں میں عالمی سطح ہر کشیدگی بڑھی ہیاور سپر پاورز کے آپس میں تعلقات نے ایک خطرناک موڑ کا رخ اختیار کیا ہے ایران اور امریکہ کے تعلقات ویسے تو ایک عرصے سے خراب تھے پر ایران میں حالیہ صدارتی الیکشن کے بعد ان تعلقات میں مزید تلخی پیدا ہوئی ہے ایران کے صدارتی الیکشن میں ابراہیم رئیسی کے کامیاب ہونے پر لگتا ہے امریکہ خفا ہے اور یہی وجہ ہے کہ اس نے ان انتخابات کی شفافیت پر سوال اٹھایا ہے گو کہ امریکہ کو کوئی حق نہیں پہنچتا کہ وہ کسی ملک کے اندرونی معاملات میں مداخلت کرے یہودیوں اور صہیونیوں کو خوش رکھنے کی کوشش میں امریکہ ایران کو بالواسطہ یا بلاواسطہ چین اور روس کے کیمپ میں دھکیل رہا ہے اور اگر اس کی یہی روش جاری رہی تو ایران اس کے ہاتھوں سے مکمل طور پر نکل کرچین اور روس کے سیاسی کیمپ میں شامل ہو سکتا ہے یا وہ وقت تھا کہ ایران اور پاکستان دونوں امریکی کیمپ میں تھے اور یا یہ وقت ہے کہ ایران اور پاکستان دونوں امریکہ کے اتحادی نہیں رہے۔ کامیاب ڈپلومیسی یہ نہیں ہوتی کہ آپ اپنے لیے زیادہ سے زیادہ دشمن خریدیں بلکہ کامیاب ڈپلومیسی اس کو کہتے ہیں کہ آپ دنیا میں اپنے لئے زیادہ سے زیادہ دوست بنائیں امریکی صدر جو بائیڈن لگتا ہے خبط عظمت کا شکار ہو رہے ہیں انھیں یہ نہیں بھولنا چاہئے کہ حالات کافی بدل چکے ہیں اور اب ان کو ایک نہیں بلکہ دو طاقتور سپر پاورز کا سامنا ہے اور وہ دونوں سیاسی طور پر آج ایک ہی پیج پر ہیں جی ہاں ہمارا اشارہ چین اور روس کی طرف ہے ان دونوں سے بیک وقت مقابلہ ان کو مہنگا پڑ سکتا ہے امریکی صدر جو بائیڈن کی روسی صدر پیوٹن سے حالیہ ملاقات بے ثمر رہی ہے اور اس سے ان دونوں ممالک میں تلخیاں کم ہونے کے بجائے زیادہ ہو گئی ہیں جو اس میٹنگ کے بعد ان بیانات سے کافی عیاں ہیں جو انہوں نے علیحدہ علیحدہ دئیے ہیں۔امریکہ کا ہمیشہ سے یہ وطیرہ رہا ہے کہ جب وہ کسی ملک کے سربراہ کو اپنے سیاسی مقاصد کیلئے استعمال کر لیتا ہے اور جب اسے یہ احساس ہونے لگتا ہے کہ وہ لیڈر اب اس کے کسی مزید کام کا نہیں رہا یا وہ اب امریکہ کی پالیسیوں کے برعکس کوئی کام کر رہا ہے تو اس صورت میں پھر وہ اس سے چھٹکارا حاصل کرتا ہے ایک نہیں درجنوں مثالیں پیش کی جا سکتی ہیں کہ جب امریکہ نے یہ محسوس کیا کہ کسی ملک کا حکمران جو کبھی اس کے اشاروں پر چلتا تھا ہر اب نہیں چل رہا تو اس نے پھر اسے صفحہ ہستی سے مٹانے سے بھی دریغ نہیں کیاجوں جوں افغانستان سے امریکی افواج کے انخلا کی تاریخ نزدیک سے نزدیک تر ہوتی جا رہی ہے موجودہ افغان حکومت اور امریکہ دونوں کو پسو پڑ رہے ہیں کہ اس انخلاء کے بعد افغانستان میں حالات کیا رخ اختیار کریں گے۔ اس مقصد کیلئے ان دونوں کو امریکی صدر نے امریکہ بلایا ہے اور جب یہ کالم منظر عام پر آئے گا تو شاید اس وقت تک ان کی امریکی صدر اور دیگر اعلی حکام کے ساتھ وائٹ ہاؤس میں ملاقاتیں ہو چکی ہوں مقبوضہ کشمیر میں بھارت کی بربریت پر بہت لکھا جاچکا ہے بھارتی وزیر اعظم نے کشمیر کی تمام سیاسی جماعتوں کے سرکردہ رہنماؤں کو 24 جون 2021 کے دن ایک میٹنگ کیلئے دلی بلایا ہے بظاہر تو فاروق عبداللہ‘ عمر عبداللہ اور محبوبہ مفتی وغیرہ بھارت نواز کشمیری رہنماؤں کی آ نکھیں بقول ان کے اب بھارت کی مسلم کش پالیسیوں کی وجہ سے کھل چکی ہیں پر واقفان حال کو اس بات کا اندیشہ ہے کہ ان کو بے جی پی کے کرتا دھرتا پھر کہیں اپنے جام میں نہ اتار لیں۔
اشتہار
مقبول خبریں
پشاور کے پرانے اخبارات اور صحافی
سید مظہر علی شاہ
سید مظہر علی شاہ
سٹریٹ کرائمز کے تدارک کی ضرورت
سید مظہر علی شاہ
سید مظہر علی شاہ
فرسودہ فائر بریگیڈ سسٹم
سید مظہر علی شاہ
سید مظہر علی شاہ
معیشت کی بحالی کے آثار
سید مظہر علی شاہ
سید مظہر علی شاہ
فوجداری اور ریونیو مقدمات
سید مظہر علی شاہ
سید مظہر علی شاہ
امریکہ کی سیاسی پارٹیاں
سید مظہر علی شاہ
سید مظہر علی شاہ
ممنوعہ بور کے اسلحہ سے گلو خلاصی
سید مظہر علی شاہ
سید مظہر علی شاہ
سعودی عرب کی پاکستان میں سرمایہ کاری
سید مظہر علی شاہ
سید مظہر علی شاہ
امریکی پالیسی میں تبدیلی؟
سید مظہر علی شاہ
سید مظہر علی شاہ
سموگ کا غلبہ
سید مظہر علی شاہ
سید مظہر علی شاہ