اب چند ہی دن باقی رہ گئے ہیں یکم جولائی 2021 کو جب ہمارے دیرینہ دوست چین کی کمیونسٹ پارٹی اپنے قیام کے سو سال پورے کرے گی اس دن کو منانے کیلئے چین میں مختلف قسم کی تقریبات کا اہتمام کیا گیا ہے چین کہ کمیونسٹ پارٹی کا وجود یکم جولائی 1921 کو عمل میں آ یا تھا ادھر ایک طرف اگر اس کے قیام سے چین میں بادشاہی نظام کے خاتمے کی بنیاد رکھی گئی تو دوسری طرف 1917 میں لینن نے روس میں زار روس کی سلطنت کو ختم کیا تھا کہنے کا مقصد یہ ہے کہ ان دو انقلابی قسم کے واقعات نے اس خطے کا نقشہ ہی بدل ڈالا چین کی خوش قسمتی یہ ہے کہ اس کی کمیونسٹ پارٹی کو 1921 سے لے کر تادم تحریر پے در پے ایسے قابل دور اندیش محنتی اور دیانت دار رہنما میسر آئے کہ انھوں نے گزشتہ 70 برسوں میں چین کی کایا ہی پلٹ ڈالی ہے اس کرہ ارض پر زندگی کے ہر میدان میں نہایت قلیل عرصے میں چین نے حیرت انگیز ترقی کی ہے آ ج سے بیس برس پہلے تک کوئی یہ تصور بھی نہیں کر سکتا تھا کہ یہ ملک مغربی ممالک کو سائنس کے میدان میں پیچھے چھوڑ جاے گا یا معاشی طور پر وہ اتنا مضبوط ہو جائے گا کہ یورپ اور امریکہ اس کے قرضدار بن جائیں گے انسان کے اس دنیا میں قیام کے دوران اس کی زندگی میں آسانیاں لانے کیلئے چینی قیادت نے جو دانشمندانہ پالیساں مرتب کیں وہ قابل تقلید ہیں عقلمند اسے کہتے ہیں جو کسی دوسرے کے تجربات سے فائدہ اٹھائے چین نے سائنس کے میدان میں اتنی جلدی ترقی کیسے کی؟اس نے اپنی بڑھتی ہوئی آ بادی پر کنٹرول کیسے کیا؟اس نے بیس سال کے کم عرصے میں 50 کروڑ کے قریب غربت کی لکیر سے نیچے زندگی گزارنے والے چینیوں کو معاشی طور پر خوشحال کیسے بنایا؟اس نے اپنی پبلک سروس میں بد عنوانی اور ایوان اقتدار میں موجود کرپٹ افراد کا قلع قمع کیسے کیا؟ ان سوالات پرہمارے ارباب اقتدار اور عوام دونوں کو سوچنا ضروری ہے اکثر دانشوروں کا خیال ہے کہ اگرہماری قیادت کرپشن کے خلاف جدوجہد اسی طرح کرے کہ جس طرح چین نے کیاہے اور وہ ملک کی ورک فورس سے اسی طرح سے کام لے کہ جس طرح چین میں لیا جا رہا ہے تو کوئی وجہ نہیں کہ اس ملک کی معیشت بہت جلد اپنے پاؤں پر کھڑی نہ ہو سکے۔اب ذرا ہلکا سا تذکرہ بعض دوسرے اہم قومی اور بین الاقوامی معاملات کا بھی ہوجائے تو بے جا نہ ہو گا ہو سکتا ہے جب یہ تحریر منظر عام پر آئے تو ڈاکٹر اشرف غنی اور عبداللہ عبداللہ کی ملاقات امریکی صدر سے ہو چکی ہو لاہور میں اگلے روز چوھدری پرویز الہٰی اور آصف علی زرداری کے درمیان جو ملاقات ہوئی ہے وہ بعض سیاسی مبصرین کی نظر میں بڑی معنی خیز ہے پر بعض لوگوں کا خیال ہے کہ یہ ایک روٹین کی ملاقات تھی اور اس سے ملکی سیاست میں میں کوئی بھونچال نہیں آ سکتا اس حقیقت سے تو انکار نہیں کیا جاسکتا کہ قاف لیگ اور پی پی پی ماضی میں سیاسی اتحادی رہے ہیں زرداری صاحب کو اس بات کا پوری طرح احساس ہے کہ اگر تو پی پی پی نے مرکز میں آئندہ حکومت بنانی ہے تو اس کیلئے آئندہ الیکشن میں اسے پنجاب میں کافی نشستیں در کار ہوں گی اس لئے وہ ابھی سے ہی پنجاب میں زیادہ سے زیادہ زیادہ سیاسی حلیف بنانے کی کوشش میں سرکرداں نظر آ رہے ہیں نظر یہ آ رہا ہے کہ ان کا ٹادگٹ وہ اراکین اسمبلی ہوں گے کہ جو الیکٹبل کے زمرے میں آتے ہیں۔
اشتہار
مقبول خبریں
پشاور کے پرانے اخبارات اور صحافی
سید مظہر علی شاہ
سید مظہر علی شاہ
سٹریٹ کرائمز کے تدارک کی ضرورت
سید مظہر علی شاہ
سید مظہر علی شاہ
فرسودہ فائر بریگیڈ سسٹم
سید مظہر علی شاہ
سید مظہر علی شاہ
معیشت کی بحالی کے آثار
سید مظہر علی شاہ
سید مظہر علی شاہ
فوجداری اور ریونیو مقدمات
سید مظہر علی شاہ
سید مظہر علی شاہ
امریکہ کی سیاسی پارٹیاں
سید مظہر علی شاہ
سید مظہر علی شاہ
ممنوعہ بور کے اسلحہ سے گلو خلاصی
سید مظہر علی شاہ
سید مظہر علی شاہ
سعودی عرب کی پاکستان میں سرمایہ کاری
سید مظہر علی شاہ
سید مظہر علی شاہ
امریکی پالیسی میں تبدیلی؟
سید مظہر علی شاہ
سید مظہر علی شاہ
سموگ کا غلبہ
سید مظہر علی شاہ
سید مظہر علی شاہ