اہم قومی اور بین الاقوامی امور۔۔۔۔

بین الاقوامی امور میں ہمارے لیے افغانستان کی صورتحال اس وقت سب سے زیادہ زیادہ اہمیت رکھتی ہے اور بلاشبہ یہ مسئلہ وزارت خارجہ کی ترجیحات میں شامل ہونا چاہئے۔ تازہ ترین اطلاعات یہ ہیں کہ امریکہ کی نیت میں فتور آ گیا ہے اور اب شاید وہ افغانستان سے مکمل طورپر اپنی افواج نہ نکالے ویسے وہ اس بات کا اعلان تو پہلے ہی کر چکا تھا کہ اٹھارہ ہزار کے قریب اس کے ڈیفنس کنٹریکٹرز افغانستان میں ابھی رہیں گے یہ ڈیفنس کنٹریکٹرز بھی تو آ خر بلیک واٹرز کی ہی طرح کراے کے فوجی ہی توہیں۔ یہ بات تو طے ہے کہ کابل میں بگرام کا ائرپورٹ چین سے صرف 300 کلومیٹرز پر واقع ہے اور امریکہ آج کل چین کوہی اپنا دشمن نمبر ون سمجھتا ہے اور وہ سی پیک اور ون بیلٹ ون روڈ کے منصوبے کو تہہ بالا کرنے کیلئے در پے ہے کہ جس میں چین افغانستان کو بھی شامل کرے گا وہ بھلا اس ائر پورٹ کو کیونکر خالی کرے گا جہاں تک ترکی کا تعلق ہے گو کہ وہ نیٹو کا ممبر رکن ہے اور اس لئے امریکہ چاہتا ہے کہ وہ سر دست کابل ائر پورٹ کی سیکورٹی کا کام اپنے ذمے لے لے پر اس پر نہ صرف طالبان کو اعتراض ہے نیٹو کے بعض ممالک بھی ترکی کے خلاف ہیں عمران خان نے یہ کہہ تو دیا ہے کہ اگر افغانستان میں امریکی افواج کے انخلا کے بعد خانہ جنگی کی صورت حال پیدا ہوئی تو وہ افعانستان کے ساتھ پاکستان کی سرحد بند کر دیں گے پر اس پر ابھی سے ہی انہیں اپنی حکمت عملی پر عمل درآمد کرنا ضروری ہو گا یہ نہ ہو کہ ہم اس وقت بیدارہوں کہ جب ہمارے سر پر افغان مہاجرین کا سیلاب امڈ آ ئے کیونکہ جوں جوں افغانستان سے امریکی افواج کے انخلا کی تاریخ نزدیک آ رہی ممکنہ خانہ جنگی کے خوف سے ہو سکتا ہے لاکھوں افغانی ابھی سے ہی فردا فردا یا گروہوں کی شکل میں مختلف حیلوں اور بہانوں سے پاکستان کا رخ نہ کرنا شروع کر دیں اس لئے اس بات کی اشد ضرورت ہے کہ ہمارے متعلقہ حکام ابھی سے ہی افعان بارڈد پر افعانستان سے آ نے والوں ہر کڑی نظر رکھیں اور حفظ ماتقدم کے طور پر ابھی سے ہی اس معاملے میں سختی کا مظاہرہ کرنا شروع کر دیں اور صرف ناگزیر کیسز میں ہی افغانیوں کو پاکستان آنے کی اجازت دی جائے۔وفاقی وزیر اسد عمر صاحب نے بجا فرمایا ہے کہ ہماری تھوڑی سی غفلت کی وجہ سے پاکستان کورونا وائرس کی چوتھی لہر کا شکار کار ہوسکتا ہے اور اس ضمن میں اگلے دو مہینے نہایت اہمیت کے حامل ہیں پوری قوم کو چاہئے کہ وہ جلد سے جلد ویکسی نیشن کا کورس مکمل کر لے اور ساتھ ہی ساتھ ایس او پیز کا دامن بھی نہ چھوڑے اس ملک میں ٹریفک کے حادثات کی وجہ سے ہر روز درجنوں ہلاکتیں ہو رہی ہیں اور یہ ایک ایسی وبا ہے کہ جس کی ویکسین ابھی تک ہماری ٹریفک پولیس دریافت نہیں کر سکی ہے ہماری سڑکوں پر روزانہ ٹریفک کے جو حادثات ہو رہے ہیں ان کی بڑی وجہ اوور سپیڈنگ ہے کہ جس کو ٹریفک پولیس کنٹرول کرنے میں بری طرح ناکام نظر آرہی ہے کیا حکومت نے ابھی تک اس ضمن میں کوئی قانون سازی کی ہے کہ گاڑی چلاتے وقت کوئی بھی ڈرائیور موبائل فون استعمال نہ کرے کیا یہ ضروری نہیں کہ یہ معلوم کرنے کیلئے کہ کہیں اوور سپیڈنگ میں ملوث ڈرائیوروں نے کوئی نشہ تو نہیں کیا ہوااور کسی بھی ٹریفک قانون کی خلاف ورزی پر کم از کم ایک سال کیلئے مجرم ڈرائیور کا ڈرائیونگ لائسنس کینسل کیا جائے جب تک سخت ٹریفک کے قوانین کا اطلاق اور پھر اتنے ہی سخت طریقے سے اس پر عمل درآمد نہ ہوگا  ٹریفک حادثات میں کمی نہیں آسکتی اس حوالے سے جہاں سخت قوانین اور اس کے اطلاق کی ضرورت ہے وہاں شہریوں کو بھی حفاظتی اقدامات کے حوالے سے امور پر توجہ دینی ہوگی۔