ممکنہ خطرات 

 جو ممالک ماضی میں یا اب تک امریکہ کے سیاسی اتحادی تصور کئے جاتے تھے یا اب بھی اس کے حامی ہیں ان کے کسی حکمران کے منہ سے امریکہ اپنے کسی حکم سے انکار کا لفظ سننے کا عادی نہیں تجربہ یہ بتاتا ہے کہ جو حکمران بھی امریکا کی حکم عدولی کرتا ہے امریکہ اس کے خلاف سازشوں کا ایک جال پھیلا دیتا ہے اس ضمن میں ایک نہیں بلکہ درجنوں مثالیں پیش کی جا سکتی ہیں۔ واقفان حال کے مطابق امریکہ کو عمران خان کا یہ بیان بڑا برا لگا ہے کہ جس میں انہوں نے ایک اخباری نمائندے کے اس سوال کے جواب میں absolutely not  کہا کہ کیا پاکستان اپنی سرزمین پر امریکہ کو افغانستان کے اندر دہشت گردوں کو ختم کرنے کیلئے کوئی فوجی اڈا فراہم کرے گا۔ عمران خان کے اس ببانگ دہل انکار کے بعد وطن عزیز میں کچھ ایسے واقعات رونما ہوئے ہیں کہ جو تمام محب وطن پاکستانیوں کے لیے تشویش کا باعث ہیں ان حالات کے پیش نظر حکومت کو نہ صرف عمران خان کی ذاتی سکیورٹی کے سسٹم کو مزید فول پروف بنانا ہوگا بلکہ یہ بات بھی ضروری ہے کہ ڈیورنڈ لائن پر پاکستان جو باڑ لگارہا ہے اسے فوراً سے پیشتر مکمل کیا جائے وزیر داخلہ نے کہا ہے کہ اس ضمن میں 88 فیصد کام مکمل ہو چکا ہے ضرورت اس امر کی ہے کہ باقی ماندہ کام کو بھی جلد سے جلد مکمل کیا جائے۔ ایک خبر کے مطابق افغانیوں کی ایک اچھی خاصی تعداد آسٹریلیا منتقل ہوگئی ہے کہ جو افغانستان کے اندر موجودہ سیاسی کشمکش میں حکومت وقت کے موقف کی حمایت کرتی تھی اور جسے یہ خدشہ ہے کہ اگر طالبان بر سر اقتدار آ گئے تو وہ ان کا قافیہ تنگ کر دیں گے۔ اس بات کا قوی امکان ہے کہ کئی مزید افغانی بھی اپنا وطن چھوڑ کر بیرون ملک شفٹ ہو جائیں اسی وجہ سے ہم نے اپنے ایک پچھلے کالم میں بھی لکھا تھا اور آج پھر لکھ رہے ہیں کہ پاکستان کو ابھی سے افغان بارڈر پر کڑی نگرانی کرنے کی ضرورت ہے کیونکہ افغانستان میں ممکنہ خانہ جنگی کے خدشے کے پیش نظر عین ممکن ہے کہ حفظ ماتقدم کے طورپر لاکھوں افغانی جو افغانستان چھوڑنے کیلئے پر تول رہے ہیں ابھی سے ہی مختلف حیلوں بہانوں سے پاکستان داخل ہونے کی کوشش کریں وزارت خارجہ کو اس ضمن میں ابھی سے ہی اقوام متحدہ کے کمیشن برائے مہاجرین سے فوری رابطے کی ضرورت ہے تاکہ افغانستان میں ممکنہ خانہ جنگی سے افغانیوں کی پاکستان یا ایران کی جانب نقل و حرکت سے نبٹنے کیلئے ابھی سے کوئی حکمت عملی طے کی جا سکے۔سوویت یونین کیساتھ 1980 میں شروع ہونے والی جنگ کے دوران افغان مہاجرین کی ایک بڑی تعداد نے پاکستان کے علاوہ ایران کا بھی رخ کیا تھا پر ایران نے اس مسئلے سے نبٹنے کیلئے جو حکمت عملی اپنائی تھی وہ ہماری حکمت عملی سے لاکھ درجے بہتر اس لیے تھی کہ ایران نے افغان مہاجرین کی ایک بڑی تعداد کو اپنے شہروں میں میں کھلم کھلا دا خل ہونے کی اجازت نہیں دی تھی جس سے ایران ان معاشرتی مسائل سے کافی حد تک بچا رہا کہ جو پاکستان میں افغان مہاجرین کے بے ٹوک داخلے سے پیدا ہوئے اور جن کا سامنا ہم آج بھی کر رہے ہیں عقل مند لوگ وہ ہوتے ہیں جو ماضی میں کسی معاملے میں ٹھوکر کھانے کے بعد مستقبل میں ایسے اقدامات کریں کہ ماضی میں کی گئی غلطیوں کا دوبارہ ارتکاب نہ ہو۔