خطے میں بدلتے حالات

9/11واقعے کی آڑ لے کر امریکہ افغانستان پر اس زعم میں چڑھ دوڑا تھا کہ یہ اس خطے میں سب سے کمزور ترین ملک ہے اور یہ کہ سوویت یونین کو افغانوں نے اپنی بہادری اور جرات و شجاعت سے شکست نہیں دی بلکہ امریکہ نے اپنی ٹیکنالوجی کے زور پر سوویت ریچھ کو ٹکڑے ٹکڑے کیا ہے۔ مگر تقریباً 20 سال کی اس لاحاصل جنگ نے امریکی تھنک ٹینک کے اعصاب شل کر دئیے ہیں اور اب امریکی فوج کے افغانستان میں دن گنے جا چکے ہیں اور یہاں سے عزت سے نکلنے کی دیر ہے۔ یہ بات تو اب واضح ہے کہ وقت کی سپر پاور امریکہ کو دنیا کی قوت ارادی کے لحاظ سے مضبوط ترین مگر عسکری طور پر کمزور ترین طالبان فوج کے ہاتھوں شکست ہو چکی ہے۔ جب سے امریکی صدر جو بائیڈن نے واضح کیا ہے کہ ہم 11 ستمبر 2021 تک افغانستان سے مکمل نکل جائیں گے تب سے طالبان نے مختلف علاقوں اور شہروں پر حملے کرکے اپنے قبضے جمانے شروع کر دئیے ہیں۔ اب تک وہ ملک کے طول و عرض میں پھیل چکے ہیں اور امریکہ کا قبضہ صرف کابل سمیت چند شہروں تک ہے مگر وہ بھی طالبان کے آئے دن کے حملوں کی زد سے محفوظ نہیں ہیں۔صدر جو بائیڈن کے اس فیصلے سے حریف سیاسی جماعتوں نے اختلاف کیا ہے اور وائٹ ہاؤس پر زور دے رہے ہیں کہ اس انخلاء کا جلد از جلد متبادل ڈھونڈ لیا جائے۔ 22 جون کو ریپبلکن قانون ساز لنڈزے گراہم نے سوشل میڈیا ایپ ٹویٹر پر اپنی ایک ٹویٹ میں کہا ہے کہ انخلاء کے بعد کے انتظامات میں پاکستان کو شامل نہ کرنا بہت بڑی غلطی ہے۔ حزب اختلاف کے اس سینیٹر نے جو بائیڈن انتظامیہ کو شدید تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے کہا کہ افغانستان سے  عجلت میں نکلنے کا انجام ایسا ہو گا جیسا کہ عراق سے امریکی فوجیوں کے نکلنے کے بعد ہوا تھا۔جو بائیڈن انتظامیہ نے ابھی تک مخالفین کی جانب سے جاری کھلے عام تنقید پر اپنی رائے دینے سے گریز کیا ہے۔ افغان امور کے ماہر اور تجزیہ کار مارون وائن باؤم کا کہنا ہے کہ امریکی فورسز کے مکمل انخلاء کے بارے میں جو بائیڈن انتظامیہ کے اندر بھی کافی اختلافات پائے جاتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ امریکی فوج انخلاء کی مخالف ہے۔ کچھ اشارے یہ بھی ملے ہیں کہ محکمہ خارجہ کے اعلیٰ عہدیداروں نے بھی بائیڈن کو افغانستان سے عجلت میں نکلنے کے بارے میں خبردار کیا ہے۔ لیکن بائیڈن مخالف رائے سننے میں دلچسپی نہیں رکھتے۔مارون باؤم نے مزید کہا کہ ایک اور اہم مسئلہ افغان سیاسی اشرافیہ کے مابین جاری اختلافات ہیں، جو سیاسی حکمرانی کے معاملات میں آپس کے اختلافات دور کرنے سے قاصر ہیں۔ جس سے طالبان کو بہت فائدہ ہوا ہے۔ کابل حکومت کو زیادہ خطرہ اپنے آپ سے ہے، طالبان سے نہیں۔ افغانستان میں جاری امریکی فوجی آپریشن دراصل چین، روس اور ایران پر نظر رکھنے اور انہیں کنٹرول کرنے کیلئے ہے۔ چونکہ امریکہ کو قریبی ملک میں محفوظ فوجی اڈوں اور چھاؤنیوں کی ضرورت ہے۔  یہ الگ بات ہے کہ امریکہ نے کبھی بھی سخت اور مشکل گھڑی میں پاکستان کا ساتھ نہیں دیا ہے چاہے وہ پاک بھارت جنگ ہو یا افغانستان میں روس کی واپسی کے بعد  پاکستان مخالف وار لارڈز کا طاقت میں آنا اور ہمارے لئے مسائل پیدا کرنا یا صدر بش کا وار آن ٹیرر کی بھٹی میں پاکستان کو جھونکنا۔ امریکہ کی اس دہشتگردی کے خلاف جنگ میں کودنے سے اب تک ستر(70) ہزار سے زائد پاکستانی  خودکش دھماکوں کی نذر ہو چکے ہیں اور 100 ارب ڈالرز سے زائد کا مالی نقصان ہو چکا ہے۔ مگر امریکہ نے ہمارے تعاون کو ہمیشہ ناکافی سمجھا اور ہر بار ہم سے کوڑیوں کے دام (چند ارب ڈالرز کے عوض) ”ڈو مور“ کا مطالبہ کرتا رہا اور مختلف حیلوں بہانوں سے ہمیں تنگ اور بلیک میل بھی کرتا رہا، جیسا کہ حالیہ عالمی دہشت گردی کی گرے لسٹ یعنی ایف اے ٹی ایف میں ہمیں برقرار رکھنا۔وزیراعظم عمران خان نے دو ٹوک الفاظ میں کہہ دیا ہے کہ امریکہ کو افغانستان کے خلاف استعمال کیلئے فوجی اڈے نہیں دیں گے اور مزید کہا ہے کہ ہم امریکی جنگ کا حصہ نہیں ہونگے۔ لگتا ہے یہ اس بیان کا بھی نتیجہ ہو سکتا ہے کہ ایف اے ٹی ایف کی گرے لسٹ میں ڈال کر ہمیں بلیک میل کیا جا رہا ہے۔عمران خان نے افغان طالبان کے متعلق بھی کہا ہے کہ اگر طالبان نے زبردستی پورے افغانستان پر قبضہ کر لیا تو ہم پاک افغان بارڈر سیل کر دینگے۔وزیراعظم نے افغان صدر اشرف غنی کو مکمل حمایت کا یقین بھی دلایا ہے اور کہا ہے پاکستان افغانستان میں مکمل امن کا خواہاں ہے۔پاکستان سنٹرل ایشیا کے ممالک کے ساتھ تجارت کرنے کا ارادہ رکھتا ہے اور ان ممالک کو سی پیک پروجیکٹ کیساتھ جوڑنے کا بھی ارادہ ہے۔ مگر افغانستان میں مکمل امن بھارت کے حق میں نہیں ہے کیونکہ اسطرح سے انکی ساری انویسٹمنٹ برباد ہو جائیگی۔حال ہی میں لاہور میں جماعت الدعوہ کے امیر حافظ سعید کے گھر کے باہر دھماکہ بھی اس بات کا ثبوت ہے کہ را  اور کچھ دیگر امن دشمن طاقتیں افغانستان سے امریکہ کا انخلاء نہیں چاہتیں اور بقول جنرل حمید گل مرحوم کے ہندوستان، پاکستان سے اس خطے میں موجود آخری زندہ امریکی فوجی تک لڑنا چاہتا ہے۔ چونکہ را کی اسوقت افغانستان میں بھرپور موجودگی ہے اور افغان سرزمین پاکستان کے خلاف استعمال کر رہی ہے اسلئے پاکستان نے پاک افغان بارڈر پر خار دار تاریں، کیمرے اور ایک ایک کلومیٹر کی دوری پر فوجی چوکیاں قائم کرنی شروع کر دی ہیں جو تقریباً 90 فیصد تک مکمل ہو گئی ہیں تاکہ مغربی سرحد کے اس پار سے دہشت گردوں کا داخلہ روک سکے۔اگر طالبان افغانستان پر مکمل کنٹرول حاصل کر لیتے ہیں تو یہ انکا اپنا اندرونی معاملہ ہے البتہ پاکستان کی کوشش ہوگی کہ افغانستان میں امن مستحکم ہو۔ ماضی میں پاکستان کے طالبان حکومت کیساتھ اچھے تعلقات رہے ہیں۔ پاکستان ان چند ممالک میں شامل تھا جنہوں نے طالبان کی حکومت تسلیم کی تھی۔