شجر کاری اور گلوبل وارمنگ۔۔۔۔

ماہرین ارضیات اور سائنس دانوں کے مطابق دنیا اس وقت گلوبل وارمنگ کی زد میں ہے اور ہر آنے والے سال کا موسم پچھلے سال کے مقابلے میں گرم ہوتا جا رہا ہے۔ آج سے ساٹھ (60) سال پہلے اکتوبر کے مہینے میں سردیاں شروع ہوتی تھیں اور گرمی کا موسم مئی کے مہینے سے شروع ہوتا تھا۔ اپریل تک پنکھے نہیں چلا کرتے تھے۔ گرمیاں گزارنے صاحب ثروت لوگ ایبٹ آباد جایا کرتے تھے، جہاں جون اور جولائی کے مہینوں میں صرف دن کے وقت پنکھوں سے کام چلتا تھا۔ جبکہ آج کل انہی مہینوں میں ائیر کنڈیشنر کے بغیر گزارہ نہیں ہوتا۔ اسی طرح کا حال دوسرے ٹھنڈے علاقوں کے موسموں کا بھی ہے۔ یہ سب کچھ اسی وجہ سے ہو رہا ہے کہ جنگلات کا رقبہ گھٹتا جا رہا ہے۔ ایبٹ آباد اور گلیات میں ٹمبر مافیا کی زد میں آکر جنگلات کٹتے جا رہے ہیں۔ گرمی میں شدت کی وجہ سے گلیشئر پگھلتے جا رہے ہیں۔ جس کی وجہ سے سیلابوں کا خطرہ بڑھتا جا رہا ہے اور ہر سال گرمیوں کے شروع میں "این ڈی ایم اے" عوام کو احتیاطی تدابیر سے آگاہ کرتا رہتا ہے۔ آج سے ساٹھ سال قبل تک اس محکمے کا تصور بھی نہیں تھا۔ بہار اور مون سون کے موسم میں شجر کاری مہم چلا ئی جاتی ہے اور لاکھوں کروڑوں کے حساب سے پودے کاشت کئے جاتے ہیں۔ مگر پھر بھی صورت حال جوں کی توں ہے۔ بہتر یہ ہے کہ حکومت ٹمبر مافیا کی سرکوبی کیلئے سخت قوانین وضع کرے اور ایسے افراد کی حوصلہ افزائی کرے جو اپنی زمینوں پر درخت لگائیں اور ان کی دیکھ بھال کریں۔ حکومت ان کیلئے انعامات کا اعلان کرے۔ اگر کوئی شخص اپنی زمین پر ایک ہرا درخت لگاتا ہے تو اس کیلئے ایک معقول رقم انعام کے طور پر مقرر کرے اور اگر وہ تین سال تک انہی درختوں کی نگرانی کرے تو اسے ایک اور انعام دے۔ اس طرح نہ صرف اس کی ذاتی آمدنی میں اضافہ ہو گا بلکہ ماحول کی بہتری کا ذریعہ بھی بن جائے گا۔یہ سال 1979 کی بات ہے۔ بھارت کے صوبہ آسام کے علاقے بھرم پتر میں بارشی سیلاب نے زبردست تباہی مچا دی۔ کوئی پیڑ پودا نہیں بچا۔ سیلاب سے بڑے پیمانے پر نقصان ہوا۔ وہاں کے ایک سولہ سالہ لڑکے جادو پیام نے جب یہ حال دیکھا تو ان سے رہا نہ گیا۔ اس نے پودے لگانے کا ارادہ کیا۔ پہلے وہ فارسٹ ڈیپارٹمنٹ کے پاس گیا۔ وہاں پر متعلقہ حکام سے اپنے ارادے کا اظہار کیا، اور ان سے مدد کی درخواست کی۔ انہوں نے لڑکے سے کہا کہ یہ بنجر زمین ہے۔ یہاں کچھ نہیں اُگ سکتا۔ بہرحال جادو پیام ایک دیہاتی لڑکا تھا، اس نے ہمت نہ ہاری۔ بانس کے 20 پودے اور 50 دوسرے پودے لگا دئیے۔ وہ ہر سال ان درختوں میں اضافہ کرتا گیا اور تیس(30) سال تک یہ سلسلہ جاری رکھا۔ درختوں کی نگرانی بھی کرتا رہا۔ 2009 تک کسی کو معلوم نہیں تھا کہ ہندوستان میں یہ بندہ کیا کر رہا ہے۔ 30 سال تک اس کی روزی روٹی اس کے پالے ہوئے گائے بھینسوں سے چلتی رہی۔ اس نے 1360 ایکڑ زمین پر پودے لگائے، جو ایک شخص کیلئے سب سے بڑا جنگل تصور کیا جاتا ہے۔ جب یہ کہانی اخبارات میں چھپی تو 2012 کو انہیں جواہر لال نہرو یونیورسٹی میں مدعو کیا گیا اور انہیں ”فارسٹ مین آف انڈیا“کا ایوارڈ دیا گیا۔ بعد میں اس وقت کے انڈیا کے صدر ڈاکٹر عبدالکلام کو جب پتہ چلا تو اس نے اسے ڈھائی لاکھ روپیہ انعام کے علاوہ ملک کے بڑے ایوارڈ سے بھی نوازا۔ اس کے بعد 2015 میں بھی اسے ایک اور ایوارڈ دیا گیا۔بہت سارے لوگوں کو معلوم نہیں کہ دنیا کا "مین آف دی فارسٹ" انڈیا میں موجود ہے۔ جس نے اکیلے 1360 ایکڑ بنجر زمین پر لاکھوں درخت اگائے۔ جہاں پر ہرن، شیر، ہاتھی اور دوسرے جانوروں کو چھ مہینوں کے لئے لایا جاتا ہے اور ان کے ہاں بچے پیدا ہوتے ہیں۔ جنہیں بعد میں دنیا کے دوسرے ممالک میں لے جایا جاتا ہے۔ وہاں پر ہزاروں قسم کے جانوروں کے علاوہ انڈیا کے 80 فیصد پرندے بھی پائے جاتے ہیں آج کل اس کی سٹوری کو امریکہ کے ایکولوجیکل سکولوں میں پڑھایا جاتا ہے۔ کہنے کا مقصد یہ ہے کہ اگر ایک بندہ اتنا کر سکتا ہے تو پوری قوم مل کر اپنی تقدیر بدل سکتی ہے۔موجودہ حکومت نے گلوبل وارمنگ سے بچنے اور آئندہ نسلوں کو تباہی سے بچانے کیلئے”بلین ٹری سونامی“کے نام سے ایک پراجیکٹ شروع کر رکھا ہے، جو اس میدان میں دنیا کا  ایک بڑا منصوبہ ہے۔اس سے جنگلات کی بحالی اور توسیع سے متعلق تمام مقاصد حاصل ہو سکیں گے۔ منصوبے سے نہ صرف خیبرپختونخوا بلکہ پورے ملک میں حیاتیاتی تنوع کے تحفظ اور فروغ میں مدد مل سکے گی۔ جنگلات میں اضافے سے فضا میں کاربن کی مقدار کم ہو جائے گی۔ یہ منصوبہ پاکستان کی پہچان بن چکا ہے جسے بین الاقوامی ادارے بھی سراہتے ہیں۔ اس منصوبے کی کامیابی کو دیکھتے ہوئے حکومت نے پورے ملک میں  ”ٹین بلین ٹری سونامی“ پراجیکٹ کا آغاز کر دیا ہے۔ جس سے نہ صرف آلودگی پر قابو پایا جا سکے گا بلکہ لاکھوں کے حساب سے روزگار کے مواقع بھی فراہم ہو سکیں گے اور ملکی و بین الاقوامی سیاحت کو فروغ حاصل ہو گا۔ جنگلات کو فروغ دینے کیلئے ٹمبر مافیا کے خلاف اقدامات اٹھائے جا رہے ہیں۔ حکومت نے سو سال پرانے درختوں کے تحفظ اور انہیں قومی ورثہ قرار دینے کا فیصلہ کیا ہے۔ خیبرپختونخوا کے ضم شدہ قبائلی اضلاع کو زیتون کی کاشت کیلئے موزوں قرار دیا گیا ہے۔ اس کی منظم کاشت سے پورا پاکستان مستفید ہو گا۔ نہ صرف کاشت کاروں کو مالی فائدہ پہنچے گا بلکہ کثیر زرمبادلہ بھی حاصل ہو سکے گا۔