پشاور:پشاورکامصروف ترین اسمبلی چوک اس وقت میدان کارزارمیں تبدیل ہوگیا جبکہ خیبرپختونخواکے مختلف ڈائریکٹوریٹس کے افسروں اورملازمین نے بجٹ میں مہنگائی کے تناسب سے تنخواہوں اورمختلف الاؤنسز میں عدم اضافے کے خلاف خیبرروڈ پر احتجاجی مظاہرہ کیا .
پولیس نے ملازمین کو سول سیکرٹریٹ کی جانب بڑھنے سے روکنے کے لئے ان پرلاٹھی چارج ٗآنسوگیس گولوں اورواٹرکین کااستعمال کیاجس کے باعث بیشتراعلی افسروں سمیت ملازمین کی حالت غیرہوگئی جبکہ پولیس نے درجنوں ملازمین کوگرفتار کرلیا اسمبلی چوک میں مظاہرے کے شہر بھر کا ٹریفک کانظام درہم برہم ہوکررہ گیا۔صوبے کے 34 ڈائریکٹوریٹس میں کام بند ہوگیا ہے۔
پشاور میں گزشتہ روز مختلف محکموں کے صوبائی ڈائریکٹوریٹ آفیسر کی جانب سے تنخواہوں میں موجود تفاوت کے خاتمے کے لیے پرامن احتجاج کیا گیا,اٹیچڈ ڈیپارٹمنٹس افیسرز ایسوسی ایشن کے زیرانتظام ہونے والے احتجاج میں پشاور کے علاوہ دوسرے اضلاع سے بھی افسروں نے شرکت کی. اٹیچڈ ڈیپارٹمنٹ آفیسر ایسوسی ایشن نے کئی روز سے ہڑتال کا اعلان کیا تھا اور صوبائی حکومت سے مطالبہ کیا گیا تھا کہ جس طرح سیکریٹریٹ افسران کو 150 فیصد بطور الاؤنس رننگ بیسک پے پر دیا ہے اس طرح کا اضافہ تمام ڈائریکٹوریٹ افسران کی تنخواہوں میں بھی کیا جائے۔
. احتجاج کرنے والے مرد و خواتین افسران نشترہال سے سول سیکرٹریٹ کی طرف پرامن مارچ کررہے تھے جہاں وزیر خزانہ تیمور جھگڑا کے دفتر کے سامنے پرامن دھرنا دیا جانا تھا.تاہم خیبر روڈ پرپولیس کی جانب سے دھاوا بول دیا گیا,سرکاری افسران پر آنسو گیس کی بدترین شیلنگ کی گئی اور لاٹھیاں برسائی گئیں,پولیس نے احتجاج میں شامل خواتین افسران کا بھی لحاظ نہ کیا اور آنسو گیس شیلنگ کا نشانہ بنایا۔
پولیس نے پرامن مارچ کرنے والے افسروں کو شدید تشدد کا نشانہ بنایا اور بغیر کسی وجہ سے انھیں حراست میں لیا گیا اٹیچڈ ڈیپارٹمنٹ کے صدر آمین خان نے افسران کے ساتھ صوبائی حکومت کی ایما پر کیے گئے پولیس کے سلوک کی مذمت کرتے ہوئے کہا کہ موجودہ حکومت کی اٹیچڈ ڈیپارٹمنٹ کے افسران سے دشمن پالیسی کو مزید برداشت نہیں کر سکتے۔
صوبائی حکومت نے سیکریٹریٹ اور ڈائریکٹوریٹ افسران کے درمیان ڈیسپیرٹی کم کرنے کے بجائے مزید بڑھا دی ہے.انہوں نے کہا کہ سیکرٹریٹ افسران پہلے سے ہی لاکھوں کی تنخواہ لے رہے ہیں ان کو رننگ بیسک پر 150 فیصد مزید اضافہ دینا سمجھ سے بالاتر ہے اور ہمیں نظر انداز کرنا سراسر ناانصافی ہے۔
افسران کی رہائی اور مطالبات کے تسلیم ہونے تک احتجاج جاری رہے گا۔ پولیس کے آنسو گیس کی زد میں خواتین او ربچے اور صحافی بھی زد میں آ گئے اسمبلی چوک میں لاپتہ افراد کی جانب سے لگائے گئے کیمپ میں بیٹھے ہو ئے بچے، عدالت آنے والے بچے، سکول کی چھٹی کے بعد گھرجانے والے بچے بھی شدید متاثر ہو ئے۔ دفاتر جانے والی خواتین، عدالت جانے والی خواتین، ریڈیو پاکستان جانے والی خواتین بھی شدید متاثر ہو ئی۔ بعض پولیس اہلکار بھی زخمی ہو گئے۔ جبکہ آنسو گیس کے باعث شیل اسمبلی کے اندر بھی گرے۔
واضح رہے کہ اے ایس پی چمکنی کو حال ہی میں ایس پی کینٹ تعینات کیا ہے جبکہ اسسٹنٹ کمشنر پشاور خود گریڈ 17کا آفیسر ہے جبکہ قائم مقام ایس پی کینٹ گریڈ سترہ کا آفیسر ہے سینئر افسران نے اس بات پرتحفظ کا اظہار کیا ہے کہ دو جونیئر افسران کی جانب سے سینئر افسروں پر تشدد کس قانون کے تحت کیا گیا ہے احتجاج میں گریڈ 17سے گریڈ20تک کے افسروں نے شرکت کی تھی۔ خیبرپختونخوا کے 34 ڈائریکٹوریٹس میں کل سے کام بند ہے۔ جس میں ایکسائز، پراسیکوشن، لائیو سٹاک، انفارمیشن، لیبر، ایگریکلچر ریسرچ سمیت دیگر ڈائریکٹوریٹس شامل ہیں۔